حوزہ نیوز ایجنسی | آیت اللہ سید ہبہ الدین شهرستانی، ادیب پیشاوری کے حوالے سے مرحوم ملا ہادی سبزواری کی انتہائی تواضع اور سادگی سے بھری زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں:
چند کرمانی طلبہ، ملا ہادی سبزواری کی علمی شہرت سن کر سبزوار کے لیے روانہ ہوئے اور ان کے درس میں شرکت کی۔ جب حکیم سبزواری روزمرہ کے معمول کے مطابق درس دینے کے لیے کلاس میں داخل ہوئے تو کرمانی طلبہ نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنا شروع کر دیا اور آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے۔ ان کا یہ انداز پورے درس کے دوران برقرار رہا۔
جب درس ختم ہوا اور حکیم ملا ہادی سبزواری مدرسہ سے باہر تشریف لے گئے تو دیگر شاگردوں نے کرمانی طلبہ کو ڈانٹا کہ انہوں نے استاد کے احترام کا خیال کیوں نہیں رکھا اور خاموش نہیں رہے؟
کرمانی طلبہ نے جواب دیا: "کچھ سال پہلے، ایک بوڑھا اور بیمار شخص ہمارے مدرسے میں آیا اور درخواست کی کہ جب تک وہ صحت یاب نہ ہو، اسے کسی حجرے میں ٹھہرنے کی اجازت دی جائے۔ مدرسے کے ناظم نے کہا: 'یہ حجرے طلبہ کے لیے وقف ہیں اور چونکہ آپ طالب علم نہیں ہیں، اس لیے آپ ان میں قیام نہیں کر سکتے۔'
مدرسے کے خادم کو اس بوڑھے پر رحم آیا اور اس نے کہا: 'انہیں خادم کے کمرے میں رہنے کی اجازت دے دیں۔' مدرسے کے ناظم نے کہا: 'شرط یہ ہے کہ وہ کچھ خدمت انجام دیں، تبھی وہ یہاں رہ سکتے ہیں۔'
یوں وہ بوڑھا شخص مدرسے میں خادم کے طور پر رہنے لگا اور مختلف خدمات انجام دیتا رہا۔ وقت گزرتا گیا، یہاں تک کہ مدرسے کے خادم کو اس شخص کی سادگی اور اخلاق بہت پسند آئے، اور اس نے اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کر دیا۔ تین سال بعد وہ بزرگ مدرسے کو چھوڑ کر اپنے وطن واپس چلے گئے۔
اب جب ہم سبزوار پہنچے ہیں اور حکیم سبزواری کے درس میں بیٹھے ہیں تو ہمیں معلوم ہوا کہ وہی بزرگ درحقیقت ملا سبزواری تھے! انہوں نے تین سال ہماری باتیں سنیں، ہماری خدمت کی، مگر کبھی اپنی شناخت ظاہر نہیں کی۔ یہ ہمارے لیے ناقابل یقین اور حیران کن حقیقت ہے!"
ماخذ: جرعہ ای از دریا، جلد ۴، صفحات ۴۲۰-۴۲۱
آپ کا تبصرہ