۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
سیپارۂ رحمان

حوزہ/قرآن مجید کے تیس پاروں کا اجمالی جائزہ؛تیسرے پارے کا مختصر جائزه۔

حوزہ نیوزایجنسی l

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

تیسرے پارے کا مختصر جائزه

تیسرے پارے کےچیدہ نکات

1. آیت ۲۵۵۔نقطۂ اوج قرآن۔یہ آیت شریفہ کہ جو آیت الکرسی کے نام سے بھی معروف ہے قرآن مجید کی عظیم ترین آیات میں شامل ہے اور اس کی فضیلت میں بہت زیادہ روایات موجود ہیں جو اس کے والاتر معارف پر دلیل ہے ، امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ ابوذر غفاری نے رسول خدا سے عرض کیا۔ یارسول اللہ وہ اہم ترین اور بافضیلت ترین آیت جو آپ پر نازل ہوئی کونسی ہے حضرت نے ارشاد فرمایا۔ آیت الکرسی امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت میں ہم کچھ یوں پڑھتے ہیں۔ ہر چیز کے لئے ایک نقطۂ اوج اور محل ارتفاء ہے اور قرآن کا نقطہ اوج آیت الکرسی ہے[1]۔

2. آیت۲۵۷۔مومنین کا ولی۔اس آیت میں ولی کے معنی سرپرست اور صاحب اختیار کے ہیں اس آیت کے مطابق پروردگار نے اپنی ولایت اور سرپرستی کو مؤمنین سے مخصوص کر دیا ہے ،جس کی بنا پر خدا مومنین کے کاموں کا متولی ہے اور وہ مومنین کو تیرگی سے خارج کرتا ہے اور اور نورکی جانب لے جاتا ہے جس کی وجہ سےانسان علمی مسائل میں جہل کی تیرگی اور عمل کے میدان میں ظلم کی تاریکی میں گرفتار نہیں ہوتا[2]۔

3. آیت۲۶۷۔اچھی چیزوں کے ذریعہ انفاق۔اس آیت کے ضمن میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم سے مروی ایک روایت نظر سے گزرتی ہے کہ جب کبھی آپ فرمان دیتے تھے کہ زکات خرما کی جمع واری کی جائے تو بعض افراد زکوۃ کے لیے بے کار اور بدترین خرما کا انتخاب کرتے تھے [3]۔

4. آیت۲۷۲۔غیر مسلمان پر انفاق اور اسکے شرائط۔یہ آیت غیر مسلمان پر انفاق کے جواز کے سلسلے میں بات کرتی ہے ان معنوں میں کہ غیر مسلم ضرورت مندوں پر انفاق نہ کرنا اس وجہ سے کہ وہ تنگدستی کا شکار ہو جائیں اور اسلام لے آئیں اور ہدایت پاجائیں صحیح نہیں ہے ، جس طرح سے کہ خدا کی بخشش وعطا اور اس کی نعمتیں اس دنیا میں تمام انسانوں کو شامل ہیں مذہب و عقیدے سے صرف نظر کرتے ہوئے تو مومنین کو بھی چاہیے کہ اپنے مستحب انفاق میں اور ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو دور کرنے کے لئے غیر مسلم کے حالات کی بھی رعایت کریں لیکن یہ اس صورت میں ہے کہ جب غیر مسلمان پر انفاق کرنا ایک انسانی مدد ہو اور کفر کی تقویت نہ کہلائے بلکہ انہیں اسلام کی انسان دوستی روح سے آشنا کرائے[4]۔

5. آیت۲۷۴۔انفاق علی علیہ السلام۔بہت ساری روایات و احادیث میں مذکور ہے کہ یہ آیت امیرالمومنین علی علیہ السلام کے سلسلے میں نازل ہوئی، بیان کیا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام کے پاس چار درہم موجود تھے جس میں سے ایک درہم کو آپ نے رات میں، ایک دن کو دن میں، ایک درہم کو آشکارا، اور ایک درہم کو چھپ کر انفاق کیا اور پھر یہ آیت نازل ہوئی[5]۔

6. آیت ۲۷۵۔ ربا کے منفی اثرات۔ ربا خوری صدقہ کے بالمقابل ہے ربا خور بلا عوض پیسہ لیتا ہے جبکہ انفاق اور صدقہ کرنے والا بلاعوض پیسہ دیتا ہے، ربا طبقاتی اختلاف کو بھڑکاتا ہے اور دشمنی لاتا ہے جبکہ صدقہ محبت و دوستی کو بڑھاتا ہے، ربا مسکینوں اور محتاجوں کے خون کو چوستا ہے جبکہ صدقہ مجبوروں کی زندگی کو سنوارتاہے،ربا باعث اختلاف و نا امنی ہے جبکہ صدقہ ضامن امنیت ہے، امام صادق علیہ السلام سے نقل ہے۔ایک درہم بھی ربا لینے کا گناہ اس سے بڑھ کر ہے کہ کوئی بیت اللہ الحرام میں ستر بار زنا کا مرتکب ہو [6]۔

7. آیت۲۸۵۔سورهٔ بقرہ کی آخری دو آیات کے پڑھنے کا ثواب۔بہت ساری روایات میں سوره بقرہ کی آخری دو آیات کی تلاوت کی بہت زیادہ فضیلت وارد ہوئی ہے ،روایات کے مضامین کچھ اس طرح سے ہیں کہ جو کوئی ان دو آیات کو نماز عشاء کے بعد پڑھے گا اس کا ثواب تمام رات عبادت کرنے والے کی طرح ہوگا اسی طرح وارد ہے کہ اگر کسی گھر میں اس آیت کو پڑھا جائے تو شیطان اس گھر میں داخل نہیں ہوسکتا [7]۔

8. سوره آل عمران آیت ۲۸۔ تقیّہ۔تقیہ ان امور میں سے ہے کہ جسے قرآن عترت نے جائز شمار کیا ہے اور عقل بھی اس کی تائید کرتی ہے جو معنوں میں ہے کہ انسان دشمن کے خوف سے ظاہری طور پراس سے موافقت کرلے اور اسکے ہمراہ ہو جائے ،بہت سارے ایسے مواقع آتے ہیں ، کہ تقیہ اور ظاہراً دشمن کے کہنے کے مطابق عمل کرنا دین کی مصلحت کو اور اس کی بقا کو کچھ اس طرح سے محفوظ کر دیتا ہے کہ جو ترک تقیہ اور نتیجتا قتل ہوجانا اسے محفوظ نہیں بناتا یہ آیت واضح طور پر تقیہ کو خاص شرائط میں جائز شمار کرتی ہے بہت ساری روایات بھی اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں [8]۔

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ تقیہ ہمیشہ ہر ایک مقام پر ایک حکم نہیں رکھتا بلکہ کبھی واجب ہے تو کبھی حرام اور کبھی مباح جب انسان کی جان خطرے میں ہو تو واجب ہے،لیکن ایسے مواقع پر کہ جب باطل کی ترویج کا موجب اور لوگوں کے گمراہ ہونےکا سبب اور ظلم و ستم کی تقویت کا باعث ہو تو حرام اور ممنوع ہے [9]۔


[1] المیزان ج۲ص۳۴۱

[2] تفسیر موضوعی ج۱۱ص۹۵

[3] المیزان ج۲ ص۳۹۵

[4] نمونہ ج۲ص۳۶۰

[5] نمونہ ج۲ ص۳۶۰

[6] اطیب البیان ج۳ ص۶۲

[7] اطیب البیان ج۳ ص۹۰

[8] المیزان ج۳ص ۱۷۷ اور ۱۸۸

[9] نمونہ ج۲ ص ۵۰۱

تبصرہ ارسال

You are replying to: .