حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ، نمایندگی پاکستان (کراچی) کے شعبۂ تحقیق کے زیر اہتمام شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی برسی کے موقع پر 5 اگست کو ایک علمی نشست کا انعقاد کیا گیا۔ یہ نشست "کتاب خانہ آیت اللہ خامنہ ای" جامعۃ المصطفیٰ کراچی میں منعقد ہوئی، جس میں اہلِ قلم، دانشوروں اور محققین نے شرکت کی۔
تلاوت کلام پاک کی سعادت جناب قاری تقی ذاکر نے حاصل کی۔جبکہ طالب علم مشرف حسین سحر نے شہید قائد کے شان میں ترانہ شہادت پیش کیا۔
شعبۂ تحقیق کے مسئول سکندر علی بہشتی نے نشست کے آغاز پر تمام شرکاء کو خوش آمدید کہا اور اس علمی محفل کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس نشست کا بنیادی ہدف شہید قائد کی شخصیت اور افکار کے مختلف پہلوؤں سے آشنائی حاصل کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس پروگرام کا ایک اہم مقصد محققین کے مابین تعارف، علمی روابط کا فروغ، اور موجودہ تحقیقی مسائل پر گفتگو کے ذریعے ان کاحل تلاش کرنا بھی ہے، تاکہ تمام اہل علم مل کر اس فکری و تحقیقی سفر میں مؤثر انداز میں پیش رفت کرسکیں۔
نشست سے "شہید عارف حسین الحسینی اور مسئلۂ فلسطین" کے موضوع پر حجۃ الاسلام سید کمیل موسوی نے کہا؛ شہید عارف حسین الحسینی سامراجی طاقتوں، آمریت اور ظلم کے خلاف جدوجہد کا استعارہ تھے۔ آج بھی عالمِ اسلام ان کے افکار کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔ شہید زندہ ہیں، کیونکہ ان کے افکار زندہ ہیں۔
آقائے موسوی نے مزید کہا: فلسطین سے شہید حسینی کا تعلق محض وقتی یا حادثاتی نہ تھا، بلکہ یہ ایک شعوری اور فکری وابستگی تھی، جس کی بنیاد انہوں نے اسلامی تعلیمات سے حاصل کی۔ امام خمینیؒ سے الہام لیتے ہوئے شہید حسینیؒ نے بھی عالمِ اسلام کے مسائل کی جڑ امریکہ اور اس کے استعماری مفادات کو قرار دیا۔ اسی پس منظر میں انہوں نے مسلح جدوجہد اور لبنان میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی بھرپور حمایت کی۔ ان کے نزدیک مسئلۂ فلسطین کے اصل ذمہ دار وہ اسلامی حکمران ہیں جنہوں نے استکبار اور امریکہ کی غلامی اختیار کر رکھی ہے، جب کہ عوام بھی غفلت کا شکار ہیں۔ جب تک امتِ مسلمہ امریکی تسلط سے نجات حاصل نہیں کرے گی، اس کی کامیابی ممکن نہیں۔
اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے کہا: آج بھی رہبرِ انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران سامراجی طاقتوں کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ جب امام خمینیؒ نے یوم القدس کا اعلان فرمایا، تو شہید حسینیؒ ہی وہ شخصیت تھے جنہوں نے مارشل لا کے باوجود فلسطین کی حمایت میں ریلیاں نکالیں۔ آج ہمیں شہید کے افکار کی روشنی میں اپنے مسائل کے حل کی راہیں تلاش کرنی چاہئیں۔
کراچی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی نے "شہید عارف حسین الحسینی اور اتحادِ امت" کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا: شہداء کی یاد منانے کا اصل مقصد ان کے اہداف کو پہچاننا اور انہیں زندہ رکھنا ہے۔ شہید حسینیؒ کے افکار نہایت جامع اور دور رس نتائج کے حامل ہیں۔ اتحادِ امت کے لیے ان کی کوششیں براہِ راست اسلامی تعلیمات سے ماخوذ تھیں۔ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر امتِ مسلمہ کے اتحاد کے داعی تھے۔ انہوں نے دیگر مکاتبِ فکر کے علما کے ساتھ مل کر اتحاد کی فضا قائم کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا اور اختلافات کے خاتمے کی بھرپور کوشش کی۔
انہوں نے مزید کہا: جب امام خمینیؒ نے ہفتۂ وحدت کا اعلان فرمایا تو اس پیغام کو عام کرنے میں شہید حسینیؒ اور ڈاکٹر نقوی پیش پیش رہے۔ شہید حسینیؒ نے نہ صرف فلسطین بلکہ جہادِ افغانستان کی بھی حمایت کی، جو ان کی امتِ مسلمہ سے دلسوزی کا مظہر تھا۔ انقلابِ اسلامی ایران کے بعد جب صدام کے ذریعے حملہ کروایا گیا، تو شہید حسینیؒ نے شعور و آگاہی کی مہم کا آغاز کیا۔ وہ صرف امتِ مسلمہ ہی نہیں بلکہ مومنین کے درمیان بھی اتحاد کے لیے کوشاں رہے اور ہر ممکن طریقے سے اختلافات ختم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
جامعۃ المصطفیٰ کراچی کے مدیر حجۃ الاسلام سید عمار ہمدانی نے شہید قائد کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: شہید حسینیؒ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ ایک عالمِ دین ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی اور سیاسی میدان میں ایک کامیاب و رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے امام خمینیؒ کے انقلابی پیغام کو عوام تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی نمایاں خدمات میں اتحاد بین المسلمین، آمریت، صہیونیت اور طاغوتی طاقتوں کے خلاف جدوجہد شامل ہیں۔ ان کا علم، زہد، تقویٰ اور بلند اخلاق ایک معجزہ نما مثال ہے۔ آج بھی دنیا کی آزادی پسند تحریکیں ان کے افکار سے رہنمائی حاصل کر رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ہم شہداء کی شہادت سے جو پیغام اخذ کرتے ہیں، وہ یہی ہے کہ ہم ان کے افکار و اہداف کو زندہ رکھیں اور ان پر عمل کریں۔ آج محققین کی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ امت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ علمی کوششیں کریں۔ دنیا میں اردو بولنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، لہٰذا اردو زبان میں تحقیقی کام کو فروغ دینا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
آخر میں انہوں نے اہلِ قلم و محققین سے اپیل کی: آپ تحقیق کے میدان میں اپنی آرا، تجاویز اور تجربات ہمارے ساتھ شیئر کریں تاکہ ہم مل کر اس حوالے سے مفید اور مؤثر علمی کام سرانجام دے سکیں۔ ان شاء اللہ ہم آپ کے تجربات سے بھرپور استفادہ کریں گے۔
پروگرام کے اختتام پر اہلِ قلم کا تعارف کروایا گیا اور متعدد اسکالرز نے اپنی تعمیری تجاویز بھی پیش کیں۔









آپ کا تبصرہ