حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایم ڈبلیو ایم قم کے تحت گزشتہ رات، شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کی برسی کی مناسبت سے ایک عظیم الشان مجلسِ عزاء مدرسہ حجتیہ میں منعقد ہوئی، جس سے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے خطاب کیا اور شہید قائد کی عظیم زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا۔

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے شہید حسینی کی میراث کے عنوان پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہید حسینی کی چار سالہ قیادت پر توجہ دیں! وہ جوڑتے تھے، توڑتے نہیں تھے، کسی کی توہین نہیں کرتے تھے۔ اپنا نعرہ نہیں لگواتے تھے، بلکہ امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا نعرہ لگواتے تھے۔
انہوں نے شہید قائد کی بے مثال شجاعت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شہید قائد شجاع تھے، شجاعت کی خیرات بانٹتے تھے، متواضع اور شب زندہ دار تھے۔
ایم ڈبلیو ایم کے چیئرمین نے مزید کہا کہ ہم خود کو شہید حسینی کا پیرو سمجھتے ہیں اور مجلسِ وحدت مسلمین اسی راستے پر چلے گی۔ شہید قائد نے ۶ جولائی ۱۹۸۷ء، قرآن و سنت کانفرس میں عملی سیاست میں آنے کا اعلان کیا، ہمارا راستہ یا "سبیلنا" کے نام سے سیاسی منشور بھی پیش کیا۔

انہوں نے دنیا کے مظلوموں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شہید قائد نے واضح کیا کہ ہم ہر ظالم کے دشمن ہیں چاہے وہ شیعہ ہی کیوں نہ ہو اور ہر مظلوم کے دوست ہیں چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ ہم شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کے ماننے والے ہیں اور ان کا پرچم بلند کرنے والے ہیں۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے سیاسی میدان کی مشکلات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں بڑی دھمکیاں اور پیشکشیں ملتی ہیں، لیکن ہم نے کبھی ظلم کا ساتھ نہیں دیا۔ ہم نے استقامت دکھائی اور کبھی بھی کسی کے سامنے تسلیم نہیں ہوں گے اور آج پاکستان کی سیاست میں ملت تشیع کا ایک محکم سیاسی چہرہ ہے۔
انہوں نے قم المقدسہ کو انقلابِ اسلامی اور دنیا میں تبدیلی کا مرکز قرار دیتے ہوئے کہا کہ قم انقلابِ اسلامی کا مرکز ہے، جس نے دنیا میں تحول برپا کیا۔ امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی عالمی فکر تھی جس نے عالمی استکبار کی مخالفت اور مستضعفوں کی حمایت کا پرچم بلند کیا۔ شہید قائد، شہید سردار سلیمانی، شہید بہشتی و شہید مطہری اور سید حسن نصر اللہ جیسی عظیم شخصیات امام امت کی اتباع اور ان کے قرآنی، عرفانی، فلسفی، سیاسی و اجتماعی افکار کا نتیجہ تھیں۔

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے رہبرِ معظم اور حوزہ علمیہ کی تاریخی ذمہ داری پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج زمانہ غیبت میں رہبر معظم مرکز امامت ہیں، جو پوری دنیا کے طاغوتوں کے مقابلے میں کھڑے ہیں اور انسانیت کی رہبری فرما رہے ہیں۔ رہبر معظم کے حوزہ علمیہ قم کی صد سالہ تاریخ کے موقع پر خطاب انتہائی اہم ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس پیغام کو چند بار پڑھیں؛ اس میں اپنی ذمہ داری کا تعین کریں اور عمل کریں، تاکہ ہماری شخصیت کو کمال حاصل ہو۔ رہبر نے فرمایا کہ حوزہ پیشرو و سرآمد ہونا چاہیے اور اس کے خدوخال بیان فرمائے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اسے عملی شکل دینے کے لیے اقدامات کریں۔ جب حوزہ پیشرو ہوگا تو اس سے فارغ التحصیل روحانی پیشرو اور سرآمد ہوگا۔
انہوں نے مذکورہ بالا موضوعات کے علاوہ جدید تمدن، قدرت کی منتقلی اور حوزہ کا کردار؛ مغربی تمدن کے خلاف جدوجہد اور اخلاقی اقدار کی بحالی؛ سیاسی جدوجہد اور فعل مکلف کا تعین اور حوزہ علمیہ کے طلبہ و علماء کی ذمہ داریوں پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی۔









آپ کا تبصرہ