حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان لاہور ڈویژن کے زیراہتمام محمدی مسجد گلبرگ میں شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی برسی کی مناسبت سے سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔
تقریب میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس، مرکزی صدر آئی ایس او پاکستان زاہد مہدی، سید نثار علی ترمذی سمیت دیگر رہنماوں نے شرکت کی۔ علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ امام خمینی اور ان کے پیغام کیساتھ علامہ سید عارف حسین الحسینی گہری فکری، جذباتی اور والہانہ وابستگی رکھتے تھے، یوں تو آپ ایک حلیم الطبع اور نرم خو انسان تھے، لیکن جب بات امام خمینی اور ان کے افکار کی ہوتی اور کوئی شخص ان کیخلاف ہرزہ سرائی کرتا یا کمزوری کا مظاہرہ کرتا تو جلال سے آپ کا چہرہ سرخ ہو جاتا۔
انہوں نے کہا کہ آپ امام خمینی اور ان کے اسلامی انقلابی پیغام کیخلاف کچھ بھی سننے کے روادار نہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ شہید حسینی نے امام خمینی کے پیغام کو زمان و مکان کی قید سے آزاد ایک آفاقی پیغام سمجھتے ہوئے اسے پاکستان کے عوام پر پہنچایا۔ علامہ راجہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ ہماری دوستیوں اور دشمنیوں کا محور امام خمینیؒ اور شہید حسینیؒ تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ جب کچھ پاکستانی طالبعلموں نے یہ کہتے ہوئے کہ ہمیں ایران، عراق کے مسائل اور ان سے جڑی متنازعہ سیاسی شخصیات سے کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہے کیونکہ یہ غیر ملکی معاملات ہیں اور ان میں مداخلت سے ہمارے لیے مشکلات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے تو شہید حسینی نے فرمایا "اے دوست آپ کا مذہب پاکستان سے تخلیق نہیں ہوا. یہ چشمہ ہدایت بھی عراق سے رواں ہوا تھا اور نواسہ رسول بھی پاکستانی نہیں تھے، ہم حق کے متلاشی اور ہر فرزند زہرا کی صدائے ھل من ناصر پر لبیک کہنے والے ہیں، لہذا ہم حق کی خاطر اٹھنے والی ہر صدا چاہے وہ دنیا کے کسی کونے سے ہی کیوں نہ اٹھے اس کا ساتھ دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ شہید عارف حسین الحسینی ایک مبارز و مجاہد عالم دین تھے، جو حق کی خاطر جان دینا اور لینا بھی جانتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ افکار امام خمینیؒ کی ترویج کو فریضہ سمجھ کر بے لوث و بے غرض انداز میں انجام دیتے تھے۔
علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ جن دنوں میں امام خمینی و انقلاب کا نام لینا عزت و تکریم و وسائل میں اضافے کا سبب نہیں بلکہ قید و بند کی صعوبتوں، تکالیف و زندگی داو پر لگانے کا باعث تھا، اس دور میں شہید حسینی پیغام خمینی کی ترویج کرنے والے ہر اول دستے میں تھے۔
انہوں نے کہا کہ شہید علامہ عارف حسین حسینی نے اپنی قیادت کے چار سالہ قلیل مدت میں شیعان پاکستان کو ایک لڑی میں پرونے، وحدت امت قائم کرنے، انقلاب اسلامی کا پیغام ملک کے طول عرض میں پھیلانے اور استعماری قوتوں کو للکارنے کا کام بیک وقت انجام دیا۔
انہوں نے کہا کہ آپ کی برق رفتار طوفانی فعالیت سے عالمی استعمار اور اس کے مقامی گماشتوں کی نیندیں حرام ہو گئیں اور ایران کے بعد سرزمین پاکستان پر بھی اسلامی انقلاب کے سورج کا طلوع ہونا نوشتہ دیوار تھا، جسے دوست دشمن سب بہ آسانی پڑھ سکتے تھے، یہی وجہ تھی کہ 5 اگست ١٩٨٨ کی صبح صادق نے شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی شکل ایک اور فرزند علی و بتول کو محراب عبادت میں فزت و رب الکعبه کی صدا بلند کرتے سنا۔