۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
آیت الله سید محمد تقی مدرسی از علمای عراق

حوزہ/عراقی مایہ ناز عالم دین آیۃ اللہ سید محمد تقی مدرسی نے آل محمد(ص)کے ایامِ عزاداری کو امت مسلمہ کی اصلاح اور اتحاد و وحدت کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے خطباء سے اتحاد و وحدت کے موضوع پر گفتگو کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عراقی مایہ ناز عالم دین آیۃ اللہ سید محمد تقی مدرسی نے ماہ محرم کی آمد پر خطباء اور مبلغین سے خطاب کرتے ہوئے آل محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزاداری کے ایام میں امت مسلمہ کی اصلاح اور اتحاد و وحدت کے موضوع پر گفتگو کرنے پر زور دیا ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ واقعۂ عاشورا امتِ اسلامیہ کی تاریخ کے عظیم ترین واقعات میں سے ایک عظیم واقعہ شمار ہوتا ہے اور ہمیں اس عظیم واقعے سے سبق، عبرت اور نصیحت حاصل کرتے ہوئے روحانی اور جسمانی تعامل کے ذریعے امت کے مستقبل کو سنوارنا چاہئے۔

آیۃ اللہ مدرسی نے کہا کہ اسلامی امت وہ امت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے زمین کا وارث منتخب کیا ہے اور اس امت کے بارے میں فرمایا ہے: کُنْتُمْ خَیْرَ اٴُمَّةٍ اٴُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاٴْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تنهون عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُونَ بِاللَّه وَ لَوْ آمَنَ اٴَهلُ الْکِتابِ لَکانَ خَیْراً لَهُمْ مِنْهمُ الْمُؤْمِنُونَ وَ اٴَکْثَرُهمُ الْفاسِقُونَ.
تم وہ بہترین قوم تھے جسے لوگوں کے فائدے کے لئے پیدا کیا گیا ہے، تاکہ تم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرو اور خدا پر ایمان لے آئیں تو ان کے لئے فائدہ ہے لیکن ان میں سے تھوڑے ہی صاحب ایمان ہیں ورنہ اکثر فاسق (اور پروردگار کی اطاعت سے خارج ) ہیں۔ امت اسلامیہ کے علمبرداروں کو چاہئے کہ وہ واقعۂ عاشورا کو اصلاح کا نقطۂ آغاز سمجھیں اور اس عظیم واقعے سے سبق اور عبرت حاصل کرتے ہوئے حسینی انسان کو پوری دنیا کی اصلاح کا ذریعہ بنانے کی کوشش کریں۔

عراقی عالم دین نے ذاکرین اور مبلغین کو دعوت دی کہ وہ لوگوں کو ایثار و قربانی کے جذبے سے آراستہ ہونے کی ترغیب دیں اور مزید کہا کہ تحریکِ عاشورا بخشش اور ایمانی تحریک کا ایک مکمل مکتب ہے۔ اس عظیم تحریک کو وجود میں لانے والی ہستیوں نے خدا کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیا اور اس آیت «إنَّ ٱللَّهَ ٱشْتَرَیٰ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِینَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ ٱلْجَنَّةَ ۚ یُقَٰتِلُونَ فِی سَبِیلِ ٱللَّهِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَیْه حَقًّا فِی التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِیلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ اٴَوْفَی بِعھْدِہِ مِنْ اللهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیْعِکُمْ الَّذِی بَایَعْتُمْ بِہِ وَذَلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ.خدا مومنین سے ان کی جان اور مال خریدتا ہے، تاکہ (ان کے بدلے) ان کے لئے جنت ہو(اس طرح سے کہ) وہ راہ ِخدا میں جنگ کرتے ہیں، قتل کرتے ہیں ۔یہ سچا وعدہ اس کے ذمہ ہے جو اس نے توریت، انجیل اور قرآن میں ذکر فرمایاہے اور خدا سے بڑھ کراپنا وعدہ وفا کرنے والا کون ہے۔ اب تمہارے لئے خوش خبری ہے اس خرید و فروخت کے بارے میں جو تم نے خدا سے کی ہے اور یہ (تمہارے لئے) عظیم کامیابی ہے۔» کے مصداق تھے اور یہ قربانی اور ایثار کے عین مطابق ہے۔

آیۃ اللہ مدرسی نے اچھے اور اعلیٰ اخلاق کی پابندی پر تاکید کرتے ہوئے اخلاق کو دینِ اسلام کا بنیادی ستون قرار دیا اور کہا کہ ہمیں دنیا کو بتانا چاہئے کہ ایک مسلمان شخص بالخصوص مؤمنِ حسینی اچھے اخلاق سے مزین ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ روحِ عاشورا سے لبریز حسینی انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی سوچ کو دوسروں کی خدمت اور ان کی مدد کے لئے استعمال کرے اور ایک لمحے کے لئے بھی ان کے حقوق چھیننے کا خیال نہ کرے، کیونکہ یہ امام حسین علیہ السلام کا پیغام ہے جب آپ مدینے سے نکل رہے تھے تو فرمایا: (إنی لم أَخْرُج أشراً ولا بَطِراً وإنَما خَرَجْتُ لطَلَب الإصْلاح فی أُمَة جَدی، أُریدُ أنْ آَمُرَ بالمَعروفِ و أنهی عَنِ المنکَرِ وَ اَسیرُ بِسیرَةِ جَدّی و أبی). میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکل رہا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے،بلکہ میرے اس سفر کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے اس سفر کے دوران امت کے مفاسد کی اصلاح کروں۔ اپنے جد امجد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قوانین اور ان کی سنتوں کو زندہ کروں اور اپنے پدر بزرگوار علی علیہ السلام کا راستہ اور ان کا طرزِ عمل اپناؤں۔

آیۃ اللہ مدرسی نے اپنی گفتگو میں اتحاد و وحدت کے مفہوم پر توجہ مرکوز کرنے اور فرزندانِ امتِ واحدہ کے درمیان تفرقے کا باعث بننے والے امور سے بچنے کی دعوت دی اور مزید کہا کہ امتِ اسلامیہ کے دشمن کمین گاہوں میں بیٹھ کر ہمیں تقسیم کرنے، ہم پر غلبہ پانے اور ہماری دولت لوٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

عراقی شیعہ عالم دین نے کہا کہ حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کے منبر کو وحدت و اتحاد کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے، کیونکہ ہمارے پاس مشترکہ فکر اور مقصد سمیت اتحاد و وحدت کے تمام تقاضے موجود ہیں۔

انہوں نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ ہر سال عاشورا اور اربعینِ حسینی علیہ السلام کے جلوس جیسے مواقع لاکھوں لوگوں کو بیدار کرتے ہیں، کہا کہ ہمیں انہیں سیاسی، نسلی یا قبائلی رجحانات سے تقسیم کرنے کے بجائے اتحاد و وحدت کے لئے تیار کرنا چاہئے۔

آیۃ اللہ مدرسی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ آج ہمیں خداوند متعال، پیغمبر اکرم اور اہل بیت علیہم السلام کے بیان کردہ اتحاد و وحدت کی ضرورت ہے، کہا کہ خطیبِ حسینی سامعین کو اتحاد و وحدت کی ترغیب دیں، کیونکہ اتحاد ہی امت کی بقاء اور دشمنوں کے مقابلے میں طاقت اور کامیابی کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:وَٱعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُواْ.اور سبھی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جاؤ۔ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کی ولایت سے افضل اور کون سی رسی ہو سکتی ہے؟

انہوں نے منبرِ حسینی کے مقررین اور خطیبوں کو وعظ و نصیحت سمیت معاشرے کی ضروریات پر توجہ دینے کی دعوت دی اور کہا کہ ہر تقریر میں سیرت اور مصائب بیان کرنا ضروری ہے، لیکن لوگوں کی ضروریات کے مطابق ان کے معاملات پر توجہ، مناسب نصیحت اور مشورے دینا بھی انتہائی اہم اور ضروری ہے۔

آخر میں، عراقی شیعہ عالم نے منبرِ حسینی علیہ السلام کے خطیبوں سے کہا کہ وہ لوگوں کو غیبت، رشوت، بدعنوانی اور ایسے کاموں سے دور رہنے کی دعوت دیں جو معاشرے کی تباہی اور عاشورا کی اقدار سے دوری کا سبب بنتے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .