۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
داعش

حوزہ/ عراق کی نیشنل سیکیورٹی سروس نے داعش کے ایک قاتل کا دل دہلا دینے والا اعترافی بیان شائع کیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عراق کی قومی سلامتی سروس نے آج اپنی رپورٹ کا ایک حصہ شائع کیا ہے کہ جب دہشت گرد گروہ داعش نے 2014 میں عراق کے اسپائیکر ایئر بیس پر قبضہ کیا تھا اس وقت کس طرح فوجی تربیت حاصل کرنے والے فوجیوں کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق یہ اسپائیکر چھاؤنی عراق کے صوبہ صلاح الدین میں تکریت شہر کے قریب واقع ہے اور اس چھاؤنی کو ماجد التمیمی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور 12 جون 2014 کو تکریت شہر پر حملے اور قبضے کے بعد دہشت گرد گروہ داعش نے حملہ کر کے ۲۰۰۰ سے زائد فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس ائیر بیس میں فوجی تربیت حاصل کرنے والوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اجتماعی قبر میں دفنا دیاگیا تھا۔

۲۰۱۷ میں ایک عراقی عدالت نے اس گھناؤنے جرم میں ملوث ۱۷ افراد کو موت کی سزا سنائی اور ۲۵ ملزمین کو ناکافی ثبوتوں کی بنا پر رہا کر دیا تھا۔ ایک عراقی سیکورٹی اہلکار طارق انمندلاوی نے گزشتہ سال کہا تھا کہ تکریت میں ۱۷ اجتماعی قبروں سے ۱۲ ہزار سے زائد لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔

آج عراق کی قومی سلامتی سروس نے اس گھناؤنے جرم کے ذمہ دار ایک اور دہشت گرد کا بیان شائع کیا ہے۔ یہ دہشت گرد صوبہ صلاح الدین کا رہائشی ہے۔ اس نے اعتراف کیا ہے کہ اسپائیکر آرمی چھاؤنی میں تربیت حاصل کرنے والے ۱۲۰ فوجیوں کے قتل میں اس کا کردار تھا۔ اسی طرح اس دہشت گرد نے اعتراف کیا ہے کہ وہ خود اسپائیکر ملٹری چھاؤنی سے تقریباً ۱۵۰ جوانوں کو لے کر گیا اور ان میں سے ۱۲۰ کو مار ڈالا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ اس نے عراقی فوجیوں اور الحشدالشعبی کے فوجیوں کو قتل کرنے میں مہارت حاصل کی ہے اور ان ہلاکتوں کے بعد وہ داعش کا رکن بن گیا اور صوبہ صلاح الدین کے علاقے السینیا کے بازار میں حشد الشعبی کی رضاکار فورسز کو قتل کرنے میں اس کا ہاتھ ہے۔

عراق کی نیشنل سیکیورٹی سروس نے اس حوالے سے ایک ویڈیو رپورٹ بھی جاری کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اسپائیکر چھاؤنی میں دہشت گردی اور دل دہلا دینے والا واقعہ 12 سے 15 جون 2014 کو پیش آیا، لوگوں کے لئے اس واقعے کو بھلا پانا بہت مشکل ہے، اسپائیکر چھاؤنی میں داعش کے ہاتھوں مارے گئے بہت سے فوجیوں کی قبریں ابھی تک غائب ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .