تحریر: محمد صغیر نصرٓٓ
حوزہ نیوز ایجنسی । دنیا کی اس اندھیر نگری میں سپرپاور اناؤنسمنٹ کا معیار سالانہ بجٹ، توپوں اور اسلحہ کی تعداد نیز فوجیوں کے ایک بڑے ریوڑ کا ہونا ہے اسی لئے چشم بصیرت سے عاری دنیا میں امریکہ پہلے، روس دوسرے اور چین تیسرے نمبر پر ہے جبکہ الہی معیارات کے مطابق سپرپاور ہونا ایمان کے پیمانے کے ساتھ مشروط ہے اسی لیے بدر کے میدانِ کارزار میں ایمان کی طاقت سے سرشار ایک نیم مسلح مجاھد 20 مسلح کفار پر بھاری تھا اور اسی ایمانی طاقت کے بھروسے پر اللہ کے نبی(ص) نے جنگ خندق میں علی علیہ السلام کو کُل ایمان کا آہنی لباس پہنا کر کُل کفر کے مقابلے میں روانہ کیا اور ایک باایمان علی (ع) نے ہزاروں بے ایمان کفار کی نبضیں روک کر فتح کی نوید سنائی اور پھر پورا خیبر اور یہودی بستیاں علی علیہ السلام کے ایمان کی ایک جھلک کے سامنے ڈھیر ہو گئیں لہذا اسلام میں سپر پاور ہونے کا معیار ایمانی طاقت کا مرہونِ منت ہے جسے علی (ع) کے بیٹوں یعنی یمنی مجاہدین اور حزب اللہ لبنان سمیت پورے مقاومتی بلاک نے آج کے دور میں ایک بار پھر ثابت کیا ہے۔
اگرچہ اسرائیلی شرارتوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں اکیسویں صدی کا آغاز ہی جنگوں سے ہوا جن میں حزب اللہ اسرائیل جنگ، حماس اسرائیل جنگ اور پھر داعش کا سر کُچل کر مقاومت اسلامی نے ہر طرف کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے، لیکن راقم کی نظر میں سنہ 2022 تک اکیسویں صدی کی سب سے بڑی جنگ انصاراللہ یمن اور 34 ملکی سعودی اتحاد کے درمیان ہونے والا معرکہ ہے۔ سعودی اتحاد نے مارچ 2015 میں امریکہ اور اسرائیل کی پشت پناہی کے ساتھ یمن پر "طوفان قاطع" نامی ایک بڑے فضائی حملے کا آغاز کیا اور دعویٰ کیا کہ 15 دنوں میں انصار اللہ یمن کی طاقت ختم کر کے اپنی بیرکوں میں واپس آ جائیں گے۔ لیکن بدترین محاصرے اور بے سروسامانی کے باوجود انصاراللہ یمن نے اللہ پر کامل ایمان رکھتے ہوئے شدید استقامت کا مظاہرہ کیا، لاکھوں شہید و اسیر دئیے، اپنے گھر تباہ ہوتے ہوئے دیکھے لیکن دشمن کے سامنے جُھکے نہیں۔ سعودی و یھودی بمباری کے پہلے 4 سال یمنیوں کے لیے بہت سخت تھے کیونکہ طاقت کے نشے میں دھت استکباری طاقتیں انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے جہاں جی چاہتا تھا وہی بمب گراتے اور انھیں روکنے والا کوئی نہیں تھا لیکن زمینی جنگ میں پابرہنہ یمنی مجاہدین، سعودی اتحاد کے لئے ننگی تلوار تھے اور انکا ہر بڑہتا ہوا قدم کاٹ دیتے تھے۔
بالآخر یمنیوں کی استقامت پر اللہ نے اپنی نصرت نازل کی اور آہستہ آہستہ انصاراللہ نے ایسے بمبار ڈرون اور بیلسٹک میزائل بنا لیے جنھوں نے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی نیندیں حرام کر دیں۔ انصار اللہ نے انتہائی مہارت کے ساتھ آرامکو آئل ریفائنری، ریاض، دبئی، ابوظہبی اور سعودی ائرپورٹس کو ٹارگٹ کیا اور ساتھ آخری ایک سال میں 10 ہزار مربع کلومیٹر علاقوں پر قبضہ بھی کیا جس نے 34 ملکی استکباری اتحاد کی ہوا نکال دی اور سعودی اتحاد اقوام متحدہ کی ثالثی پر جنگ بندی کے لیے آمادہ ہو گیا 2، 2 ماہ کی جنگ بندی دو بار ایکسٹینڈ ہو چکی ہے اور مزید بھی ایکسٹینڈ ہی ہو گی کیونکہ سعودی اتحاد جانتا ہے کہ انصار اللہ یمن جنگ بندی کی فرصت ملتے ہی مزید طاقتور ہو چکی ہے اور یہ جنگ جیت چکی ہے اور وہ سارے خائن عربوں کے مقابلے میں سُپر پاور بن چکی ہے۔ اگر سعودی اتحاد نے دوبارہ جنگ شروع بھی کی تو اب انصار اللہ فیصلہ کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائے گی۔