از قلم: مولانا محمد احمد فاطمی
حوزہ نیوز ایجنسی| اسلام کی تاریخ قربانی، ایثار اور شہادت سے مزین ہے؛ شہادت محض ایک فرد کی جان دینے کا نام نہیں، بلکہ ایک عہد، ایک نظریے اور ایک مقصد کی بقاء کے لیے جان قربان کرنے کا نام ہے۔ قرآن کریم شہداء کو زندہ قرار دیتا ہے:"وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ" (آل عمران: 169)(اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں، انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں رزق پا رہے ہیں۔)
یہی وہ نظریہ ہے جس نے اسلامی تاریخ میں شہداء کی قربانیوں کو ایک لازوال مقام عطا کیا۔ اسی تناظر میں رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی فکر اور کراچی کے شہید مظفر علی کرمانی کی شہادت ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔
اہمیتِ شہادت از نظر اسلام
1. شہادت کا مفہوم
اسلام میں شہادت ایک بلند ترین مقام ہے، جس میں انسان راہِ خدا میں اپنی جان نثار کر دیتا ہے۔ شہادت فقط جنگ کے میدان میں محدود نہیں، بلکہ ہر وہ قربانی جو دین، حق اور عدل کے لیے دی جائے، اس میں شامل ہو سکتی ہے۔
2. شہادت کی فضیلت
حدیث نبوی: "افضل الموت قتل الشهادة" (سب سے افضل موت شہادت ہے۔)
امام علی علیہ السلام: "وَاللهِ لَابْنُ أَبِي طَالِبٍ آنَسُ بِالْمَوْتِ مِنَ الطِّفْلِ بِثَدْيِ أُمِّهِ" (خدا کی قسم! ابن ابی طالب کو موت سے اس سے زیادہ لگاؤ ہے جتنا بچے کو اپنی ماں کے سینے سے ہوتا ہے۔)
شہادت کے بعد حساب و کتاب نہیں، بلکہ سیدھا جنت کا وعدہ ہے۔
رہبر معظم سید علی خامنہ ای یاد شہداء کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ"اگر شہداء کی یاد باقی رہے، تو ملت باقی رہے گی؛ اگر شہداء کی یاد محو ہو جائے، تو ملت اپنی شناخت کھو دے گی۔"
رہبر معظم فرماتے ہیں:"قومیں جب تک اپنے شہداء کو یاد رکھتی ہیں، وہ زندہ رہتی ہیں اور جب شہداء کو بھلا دیتی ہیں تو وہ ذلت اور غلامی میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔"
آپ فرماتے ہیں:"ہمارے جوانوں کو چاہیے کہ وہ شہداء کی زندگیوں کو اپنے لیے نمونہ قرار دیں، کیونکہ شہداء فقط تاریخ کے صفحات میں درج نام نہیں بلکہ وہ دائمی حقیقت ہیں۔
رہبر معظم کے مطابق:"دشمن ہمیشہ ہماری قربانیوں کو فراموش کروانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ہماری نئی نسل اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو جائے، لیکن شہداء کی یاد، دشمن کی سازشوں کا بہترین توڑ ہے۔"
شہید مظفر علی کرمانی کا شمار کراچی کی انقلابی اور متحرک شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کی زندگی دین، ولایت، اور حق کے دفاع کے لیے وقف تھی۔
مظفر علی کرمانی 1960ء میں کراچی کے قدیمی علاقے کھارادر میں پیدا ہوئے۔ کھارادر کو بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی جائے ولادت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ علاقہ اپنی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کے لیے مشہور ہے۔ مظفر علی کرمانی نے اپنی ابتدائی تعلیم اسی علاقے میں حاصل کی اور بعد میں اعلیٰ تعلیم کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ آپ ایک سادہ مزاج اور عزادار شخصیت کے حامل تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں دینی اور سماجی خدمات انجام دیں اور معاشرے میں اتحاد بین المسلمین کے فروغ کے لیے کوشاں رہے۔ ان کی خدمات کا دائرہ وسیع تھا، جس میں نوجوانوں کی تربیت، مذہبی اجتماعات کا انعقاد، اور معاشرتی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد شامل تھی۔
اگر شہید مظفر علی کرمانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات کی بات کی جائے تو آپ کی نمایاں خدمات میں مندرجہ ذیل خدمات کا ذکر کیا جا سکتا ہے:
امام خمینیؒ کے افکار کا فروغ:
شہید مظفر علی کرمانی امام خمینیؒ کے راستے کو حقیقی محمدی و علوی اسلام کا راستہ سمجھتے تھے اور فکر امام پر آپ مکمل طور پر ایمان رکھتے تھے۔
اسی لیے آپ نے امام خمینیؒ کے افکار کو اردو دان طبقے تک پہنچانے میں پاکستان بھر اور بالخصوص کراچی میں ایک تاریخی، اساسی اور کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے امام خمینیؒ کی تعلیمات اور انقلابی نظریات کو عام کرنے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے، تاکہ لوگوں میں بیداری اور شعور پیدا ہو۔
اخبار کی اشاعت:
شہید مظفر علی کرمانی نے یک ہفت روزہ اخبار کا آغاز بھی کیا، جو ابتدا سے ہی دنیا بھر کے مظلوموں اور مسلمانوں کے بین الاقوامی مسائل کی خبریں شائع کرتا تھا۔ اس وقت بین الاقوامی خبروں تک رسائی کا کوئی مؤثر ذریعہ موجود نہیں تھا، اور یہ اخبار اس خلا کو پُر کرنے میں اہم ثابت ہوا۔
بقیۃ اللہ (عج) اسلامک انسٹی ٹیوٹ کا قیام:
شہید مظفر علی کرمانی نے "بقیۃ اللہ اسلامک انسٹی ٹیوٹ" کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد دینی تعلیم و تربیت اور اسلامی افکار کا فروغ تھا۔ اس ادارے کے ذریعے انہوں نے نوجوانوں کی تربیت اور اسلامی تعلیمات کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔
سیمینارز اور اجتماعات کا انعقاد:
شہید مظفر علی کرمانی نے پاکستان کے مختلف شہروں، خصوصاً کراچی، اور بیرون ممالک میں مختلف موضوعات پر سیمینارز کا انعقاد کیا۔ ان سیمینارز کے ذریعے انہوں نے انلقبا اسلامی، فکر رہبران انقلاب اور انقلابی علماء کا تعارف کروایا اور عوامی شعور بیدار کرنے کی کوشش کی۔
اتحاد بین المسلمین کی کوششیں:
آپ نے پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے لیے عملی جدوجہد کی۔ انہوں نے مختلف مکاتب فکر کے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد کو فروغ دینے کے لیے کام کیا، تاکہ ملت اسلامیہ میں یکجہتی پیدا ہو۔
انقلابی عزاداری کا فروغ:
شہید مظفر علی کرمانی کراچی میں انقلابی عزاداری کی بنیاد رکھنے والوں میں ہر اول دستے کے سالاروں میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔
شہید مظفر علی کرمانی کی یہ خدمات ان کی انقلابی سوچ، دینی جذبے، اور ملت کی خدمت کے عزم کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان کی زندگی اور کارنامے آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
شہید مظفر علی کرمانی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے پیغامات کو کچھ اس طرح خلاصہ کیا جاسکتا ہے:
اسلامی شناخت کی حفاظت:
شہید مظفر علی کرمانی نوجوانوں کو ہمیشہ اپنی اسلامی شناخت برقرار رکھنے کی تلقین کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ چاہے آپ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں یا کسی بھی سرگرمی میں مصروف ہوں، اپنی اسلامی اقدار کو نہ چھوڑیں۔ ان کی یہ نصیحت نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
اسلامی اقدار کی بحالی:
شہید موجودہ دور میں اسلامی قدروں کی تبدیلی پر افسوس کا اظہار کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ آج اسلام کی مظلومیت یہ ہے کہ اس کی تمام قدریں تبدیل ہوچکی ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ حقیقی اسلامی تعلیمات کی طرف واپسی کی دعوت دی اور معاشرتی رسوم و رواج کو مردہ جسم سے تعبیر کیا۔
نظم و ضبط اور شجاعت:
شہید کرمانی کی زندگی نظم و ضبط اور شجاعت کا عملی نمونہ تھی۔ وہ ولایت فقیہ کے حقیقی پیروکار تھے اور امام حسینؑ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ان کی شجاعت اور استقامت نے انہیں ملت کے لیے ایک مثال بنا دیا۔
سادگی اور عملی خدمت:
شہید کرمانی نے سادہ زندگی گزاری اور دنیاوی آرائش سے دور رہے۔ وہ لمبی تقریروں کے بجائے عملی کام کو ترجیح دیتے تھے اور ایک کارکن کی طرح میدان عمل میں سرگرم رہتے تھے۔ ان کی یہ سادگی اور عملی خدمت ان کی عظمت کی دلیل ہے۔
شہید مظفر علی کرمانی کی یہ خصوصیات اور خدمات ان کی عظیم شخصیت کا عکاس ہیں۔ ان کی زندگی اور قربانی آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دیتی ہے۔
ولایت فقیہ کا حقیقی پیروکار:
شہید مظفر علی کرمانی ولایت فقیہ کے نظریے پر مکمل ایمان رکھتے تھے۔ وہ امام خمینیؒ کے انقلابی افکار کے مبلغ تھے اور ان کی زندگی کا مقصد اسلامی نظام کی حفاظت اور فروغ تھا۔ شہید کرمانی نے اپنی تمام تر جدوجہد کو اسی نظریے کے گرد مرکوز رکھا اور پاکستان میں ولایت فقیہ کے نظریے کو عام کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے۔
ولایت کی راہ میں قربانی:
شہید مظفر علی کرمانی نے اپنی جان کا نذرانہ بھی اسی راہ میں پیش کیا۔ وہ جانتے تھے کہ مکتب علی علیہ السلام پر چلنا اور عصر حاضر یعنی عصر غیبت کبری میں ولایت فقیہ کی پیروی و حمایت کرنا استعمار اور باطل قوتوں کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف ہے، لیکن انہوں نے اس راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔
نتیجہ:
شہید مظفر علی کرمانی نے پوری زندگی انہی اصولوں کے عملاً گزری۔ وہ صرف نظریاتی مبلغ نہیں تھے بلکہ عملی طور پر اس راہ کے سپاہی بھی تھے۔ ان کی شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ولایت فقیہ کے حقیقی پیروکار اور محافظ تھے۔ ان کی جدوجہد آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور ہمیں اس راستے پر چلنے کی ترغیب دیتی ہے۔









آپ کا تبصرہ