جمعہ 11 اپریل 2025 - 17:15
ٹیٹوز بنوانا / کھدوانا: حرام یا جائز؟ فقہی نقطۂ نظر!

حوزہ/دنیا کے بدلتے ہوئے رجحانات اور فیشن کی نت نئی شکلوں نے نوجوان نسل میں کئی نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ انہی میں سے ایک اہم سوال "ٹیٹو" (Tattoo) کے جواز یا حرمت سے متعلق ہے۔ آج ٹیٹوز نہ صرف فیشن اور شناخت کی علامت بن چکے ہیں، بلکہ بعض مذہبی طبقات اور گروہوں کے لیے روحانی یا ثقافتی اظہار کا ذریعہ بھی سمجھے جاتے ہیں۔

تحریر و ترتیب: مولانا محمد احمد فاطمی

حوزہ نیوز ایجنسی| دنیا کے بدلتے ہوئے رجحانات اور فیشن کی نت نئی شکلوں نے نوجوان نسل میں کئی نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ انہی میں سے ایک اہم سوال "ٹیٹو" (Tattoo) کے جواز یا حرمت سے متعلق ہے۔ آج ٹیٹوز نہ صرف فیشن اور شناخت کی علامت بن چکے ہیں، بلکہ بعض مذہبی طبقات اور گروہوں کے لیے روحانی یا ثقافتی اظہار کا ذریعہ بھی سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال عام ہو چکا ہے کہ آیا ٹیٹو بنوانا یا کھدوانا شرعی طور پر جائز ہے یا حرام؟ اور یہ کہ کیا ٹیٹو نماز، وضو یا غسل پر اثر انداز ہوتا ہے؟

ٹیٹو: تعارف اور فقہی مسئلہ

ٹیٹو ایک ایسا عمل ہے جس میں جلد کے نیچے مستقل یا عارضی رنگ بھر کر کوئی نقش یا علامت بنائی جاتی ہے۔ بعض افراد دینی وابستگی کے اظہار کے لیے معصومینؑ کے اسمائے مبارکہ کو بھی ٹیٹو کی شکل میں کندہ کرواتے ہیں۔ یہ امر فقہی لحاظ سے کئی سوالات کو جنم دیتا ہے:

1. کیا یہ عمل شرعی طور پر جائز ہے؟

2. کیا معصومینؑ کے ناموں کو جسم پر نقش کرنا بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے؟

3. کیا ٹیٹو کی موجودگی نماز، وضو یا غسل کے باطل ہونے کا سبب بنتی ہے؟

مراجع کرام کا مؤقف

اس حوالے سے مراجع عظام، بالخصوص آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ‌ای دام ظلہ اور آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی دام ظلہ کے دفاتر سے جوابات موصول ہوئے ہیں، جن کے مطابق:

ٹیٹو بنوانا جائز ہے، اور چونکہ یہ جلد کے نیچے ہوتا ہے، لہٰذا نہ وضو پر اثر انداز ہوتا ہے، نہ غسل پر اور نہ ہی نماز کی صحت میں خلل پیدا کرتا ہے

یہ وضاحت اس امر کو بھی شامل ہے کہ ٹیٹو چاہے عارضی ہو یا مستقل، اگر وہ جلد کے نیچے ہے اور پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ نہیں بنتا، تو شرعی طور پر غسل، وضو یا نماز میں کوئی اشکال نہیں۔

زینت کا پہلو اور خواتین کے لیے احتیاط

البتہ خواتین کے لیے ایک اہم احتیاط کا پہلو مراجع نے واضح فرمایا ہے کہ:

اگر عورت کے جسم پر ٹیٹو کسی ایسے مقام پر ہو جو عرفاً زینت میں شمار ہوتا ہو، جیسے بھنویں، تو اس کا نامحرم سے چھپانا واجب ہے، یہ قید دراصل اسلامی حجاب اور عورت کے زینتی اعضا کو چھپانے کی عمومی ہدایت کی روشنی میں دی گئی ہے۔

نام معصومؑ کا ٹیٹو: ادب اور احتیاط

اگرچہ فقہی طور پر معصومینؑ کے اسمائے مبارکہ کا ٹیٹو بنوانا جائز ہے، تاہم بعض علماء ادباً اور اخلاقاً اس سے اجتناب کو بہتر قرار دیتے ہیں، خاص طور پر اگر ایسا مقام ہو جہاں نجاست کا خدشہ ہو یا بے ادبی کا تصور پیدا ہو۔

نتیجہ و تجزیہ

ٹیٹو بنوانا فی نفسہ حرام نہیں ہے اور اگر اس سے وضو یا غسل میں کوئی شرعی رکاوٹ پیدا نہ ہو تو یہ عمل جائز ہے۔ تاہم زینت اور ادب کے پہلوؤں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے، بالخصوص خواتین کے لیے زینتی اعضا کو ڈھانپنے کا وجوب اور معصومینؑ کے اسمائے مبارکہ کا احترام بنیادی شرعی اصول ہیں۔

ایسے مسائل میں مقلَّد مرجع کی رائے کے مطابق عمل کرنا افضل اور محفوظ ترین راستہ ہے۔ جدید دنیا کے بدلتے ہوئے رجحانات کو اسلامی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے لازم ہے کہ نوجوان نسل علمائے دین سے رابطہ رکھے اور اپنے ہر عمل کو شریعت کے آئینے میں دیکھے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha

تبصرے

  • عارف حسین PK 09:33 - 2025/04/23
    اللہ تعالی کا اسم مبارک اور معصومین علیھم السلام کے اسمائ مبارکہ کو بغیر وضو کے مس نہیں کر سکتے تو پھر ان کے اسما کا ٹیٹو بنوانا جا ئز نہیں ھو گا-