از قلم: مولانا محمد احمد فاطمی
حوزہ نیوز ایجنسی | شام کے پہاڑوں کے درمیان واقع، معلولا مسیحی تاریخ اور عقیدے کا ایک روشن نشان ہے۔ دمشق سے تقریباً 56 کلومیٹر شمال مشرق میں موجود یہ قدیم گاؤں اپنی ثقافتی، لسانی اور روحانی وراثت کے لیے گہری اہمیت رکھتا ہے۔ یہ دنیا کے ان چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں آج بھی مغربی نیو-آرامی زبان بولی جاتی ہے، جو حضرت مسیح کی زبان کے قریب ترین سمجھی جاتی ہے۔
مسیحی وراثت کا زندہ گواہ
معلولا قدیم مسیحی خانقاہوں اور گرجا گھروں کا گھر ہے، جو مسیحیت کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سینٹ سرجیس اور باخوس کی خانقاہ (مار سرجیس) اور سینٹ تھیقلا کی خانقاہ (مار تقلا) شامل ہیں۔
سینٹ سرجیس اور باخوس کی خانقاہ: یہ خانقاہ دو رومی سپاہیوں کے نام سے منسوب ہے جو اپنے مسیحی عقیدے کی خاطر شہید ہوئے۔ اس کی عمارت اور قدیم نوادرات ابتدائی مسیحیوں کی روحانی زندگی کو سمجھنے کا ذریعہ ہیں۔
سینٹ تھیقلا کی خانقاہ: سینٹ تھیقلا، جو سینٹ پولوس کی شاگرد تھیں، نے معلولا کے غاروں میں پناہ لی تھی۔ ان کی کہانی ایمان کی مضبوطی اور الٰہی مدد کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ ان کے نام پر بنائی گئی خانقاہ دنیا بھر کے زائرین کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔
حضرت مسیح کی زبان
معلولا کی سب سے منفرد خصوصیت مغربی نیو-آرامی زبان کا تحفظ ہے، جو آرامی زبان کی آخری زندہ بولی ہے اور حضرت مسیح کے دور میں بولی جاتی تھی۔ گاؤں کے لوگوں کی اس زبان کو زندہ رکھنے کی جدوجہد جدید دنیا کو مسیحیت کی جڑوں سے جوڑتی ہے۔
زیارت اور عقیدے کا مرکز
معلولا صدیوں سے مسیحیوں کے لیے زیارت کا مقام رہا ہے۔ اس کے مقدس مقامات اور روحانی ماحول ان لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو اپنے عقیدے سے گہرا تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں۔ گاؤں میں ہونے والے سالانہ مذہبی تہوار اور جلوس اس کی اہمیت کو مسیحی عقیدت کے مرکز کے طور پر اجاگر کرتے ہیں۔
مزاحمت اور ہم آہنگی کی علامت
حال ہی میں معلولا نے کئی مشکلات کا سامنا کیا، جن میں تنازعات اور ثقافتی نقصان شامل ہیں۔ اس کے باوجود یہاں کے لوگوں نے اپنی وراثت کے تحفظ کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں۔ تباہ شدہ گرجا گھروں کی بحالی اور ثقافتی روایات کی بحالی اس کمیونٹی کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے۔ خاص طور پر، معلولا ایک مشترکہ زندگی کی علامت ہے، جہاں مسیحی اور مسلمان ایک ساتھ محبت اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں، اور گاؤں کی تقدیس کا احترام کرتے ہیں۔
معلولا صرف ایک تاریخی مقام نہیں بلکہ مسیحی عقیدے اور ثقافت کے دیرپا ورثے کا زندہ گواہ ہے۔ اس کے قدیم گرجا گھر، مقدس زبان، اور مضبوط کمیونٹی مسیحیت کے انسانی تاریخ پر گہرے اثرات کی یاد دہانی ہیں۔ اہل ایمان کے لیے معلولا ایک مقدس مقام ہے جو ماضی اور حال کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے، اور مسیحیت کی روحانی اور ثقافتی حقیقت کو محفوظ رکھتا ہے۔
معلولا اور حضرت مسیح کی آرامی زبان کا تعلق
معلولا دنیا کے ان چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں مغربی نیو-آرامی زبان اب بھی بولی جاتی ہے۔ یہ زبان آرامی زبان کا آخری زندہ لہجہ ہے جو حضرت مسیح کے زمانے میں بولی جاتی تھی۔
تاریخی زبان کی وراثت
آرامی زبان شام، فلسطین، اور مشرق وسطیٰ کے دیگر علاقوں میں عام تھی اور حضرت مسیح کی مادری زبان سمجھی جاتی ہے۔ آج، معلولا کے بزرگ باشندے اور چند دیگر دیہات کے لوگ اس زبان کو بولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو حضرت مسیح کے زمانے کے ثقافتی اور مذہبی ماحول کا زندہ گواہ ہے۔
مقدس رسومات اور آرامی زبان
معلولا میں مسیحی مقدس رسومات کے دوران آرامی زبان کا استعمال کیا جاتا ہے، جو زائرین کو حضرت مسیح کے زمانے کی روحانی روایات سے جوڑتی ہے۔
مقدس مقامات
1. سینٹ سرجیس اور باخوس کی خانقاہ (مار سرجیس)
یہ قدیم خانقاہ چوتھی صدی میں تعمیر کی گئی اور شہید رومی سپاہیوں سرجیس اور باخوس کے نام سے منسوب ہے۔ یہ مقام ابتدائی مسیحی عبادت گاہوں میں شمار ہوتا ہے اور اس کا آرکیٹیکچر مسیحی ورثے کی عکاسی کرتا ہے۔
2. سینٹ تھیقلا کی خانقاہ
یہ خانقاہ حضرت پولوس کی شاگردہ سینٹ تھیقلا سے منسوب ہے، جنہوں نے اپنے ایمان کی وجہ سے معلولا کے غاروں میں پناہ لی تھی۔ ان کا مقبرہ اور خانقاہ دنیا بھر سے زائرین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، اور یہ مقام معجزات کے لیے مشہور ہے۔
3. مقدس غار اور دیگر چرچ
معلولا کے غاروں اور گرجا گھروں میں مسیحی تاریخ کے کئی نایاب نقوش موجود ہیں۔ یہاں قدیم مسیحی آرٹ اور مذہبی علامات محفوظ ہیں۔
آبادی اور جدید تاریخ
معلولا کی کل آبادی
معلولا کی کل آبادی تقریباً 2,000 سے 5,000 افراد پر مشتمل ہے۔
یہاں کی آبادی میں مسیحی اکثریت ہے، جن میں زیادہ تر کیتھولک اور آرتھوڈوکس شامل ہیں۔
مسلمان بھی اس گاؤں میں رہتے ہیں، اور یہ کمیونٹیز صدیوں سے امن و ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہی ہیں۔
تاریخ اور اسد حکومت کا دور
بشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد کی حکومت میں معلولا کو ایک اہم تاریخی اور مذہبی مقام کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
حکومت نے سیاحت کو فروغ دینے کے لیے معلولا کے گرجا گھروں اور خانقاہوں کی حفاظت کی کوششیں کیں۔
تاہم، شام کی خانہ جنگی کے دوران 2013 میں معلولا شدت پسند گروہوں، خاص طور پر النصرہ فرنٹ (اب HTS) کے حملوں کا شکار ہوئی۔
ان حملوں میں کئی گرجا گھر تباہ ہوئے، اور مسیحی برادری کو نشانہ بنایا گیا۔
شام کی حکومت نے 2014 میں معلولا کو آزاد کروایا، اور تباہ شدہ مقامات کی بحالی کے لیے اقدامات کیے گئے۔
معلولا نہ صرف شام بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مقدس اور تاریخی مقام ہے۔ اس کا آرامی زبان کے ذریعے حضرت مسیح سے تعلق، اس کے مقدس مقامات، اور اس کی صدیوں پرانی مسیحی وراثت اسے منفرد بناتی ہے۔ لیکن حالیہ تنازعات اور شدت پسند گروہوں کے خطرے کے باوجود، معلولا کے لوگ اپنی ثقافت اور عقیدے کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عالمی برادری کے لیے ضروری ہے کہ اس تاریخی مقام کو محفوظ رکھنے میں مدد کرے تاکہ یہ مسیحی تاریخ کا ایک زندہ گواہ بن کر باقی رہے۔
شام کی خانہ جنگی اور داعش کے ظہور کے دوران، معلولا شہر نے نہ صرف اپنے تاریخی اور مذہبی مقام کے تحفظ کے لیے چیلنجز کا سامنا کیا بلکہ جنگ کی مختلف قوتوں کے درمیان ایک اہم مرکز بھی بن گیا۔ داعش کے حملوں اور شدت پسندی نے شام کے کئی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اور معلولا، جو مسیحی تاریخ و ثقافت کا اہم مرکز ہے، ان شدت پسند حملوں کا شکار ہوا۔
2013 میں داعش اور النصرہ فرنٹ جیسے شدت پسند گروہوں نے معلولا پر حملہ کیا۔ ان حملوں میں مسیحی برادری کے افراد کو نشانہ بنایا گیا، مقدس مقامات کو نقصان پہنچایا گیا، اور گرجا گھروں کو تباہ کیا گیا۔ داعش کی شدت پسندی کا مقصد نہ صرف علاقے پر قبضہ کرنا تھا بلکہ وہاں کے مذہبی اور ثقافتی ورثے کو مٹانا بھی تھا۔
شیعہ مجاہدین کی مداخلت
داعش کے خلاف لڑائی میں شیعہ مجاہدین نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ ان گروہوں میں لبنان کی حزب اللہ اور عراق کے کئی شیعہ مجاہدین شامل تھے، جنہوں نے شام میں بشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کے خلاف لڑائی لڑی۔
حزب اللہ نے معلولا اور دیگر قریبی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف اہم کارروائیاں کیں۔ حزب اللہ کے مجاہدین نے شام کی فوج کے ساتھ مل کر معلولا کے مقدس مقامات کو آزاد کروانے اور داعش کے قبضے کو ختم کرنے میں مدد کی۔
مقدس مقامات کا تحفظ: معلولا کے گرجا گھروں اور خانقاہوں کو داعش کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے حزب اللہ نے خصوصی اقدامات کیے۔ حزب اللہ نے معلولا کی مسیحی برادری کے افراد کو تحفظ فراہم کیا اور انہیں شدت پسندوں کے ظلم و ستم سے بچایا۔ عراق کی الحشد الشعبی، نے بھی شام کے دیگر علاقوں کی طرح معلولا کے دفاع میں کردار ادا کیا۔
یہ گروہ شام میں بشار الاسد حکومت کے اتحادی کے طور پر کام کر رہے تھے اور داعش کے خلاف ایک وسیع پیمانے پر عسکری مہم کا حصہ تھے۔
معلولا کے قریب علاقوں میں داعش کی موجودگی ختم کرنے میں ان شیعہ مجاہدین نے اہم کارروائیاں کیں۔
شیعہ مجاہدین اور شام کی مسیحی برادری کے درمیان ایک خاص تعلق قائم ہوا، جو مشترکہ دشمن یعنی داعش کے خلاف جدوجہد پر مبنی تھا۔
مذہبی مقامات کا احترام: شیعہ مجاہدین نے معلولا کے مقدس مقامات کا احترام کیا اور ان کے تحفظ کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔
مسیحی برادری کا اعتماد: داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کے حملوں کے دوران شیعہ مجاہدین کی مدد نے معلولا کی مسیحی برادری میں ان کے لیے اعتماد پیدا کیا۔
دنیا کے بدلتے حالات میں مذہبی اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے عالمی اتحاد کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔ مسیحی تاریخ اور ثقافت کو محفوظ رکھنے کے لیے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں، شیعہ مزاحمتی تحریکوں کا کردار ناقابل انکار ہے۔ مدافعین حرم اور شہید سید حسن نصر اللہ کی قیادت میں یہ تحریکیں نہ صرف مسلمانوں کے مقدس مقامات بلکہ مسیحی مقدس مقامات کی حفاظت میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ آج دنیا کی مسیحی قوم کو دہشتگردی کے خلاف ان کے کردار کو تسلیم کرنا اور ان کی قدر کرنا ضروری ہے۔
1. ہئیت تحریر الشام اور مسیحی ورثے پر خطرہ
ہئیت تحریر الشام (HTS)، جو پہلے النصرہ فرنٹ کے نام سے جانی جاتی تھی، شام میں ایک شدت پسند گروپ ہے جو القاعدہ سے منسلک رہا ہے۔ یہ گروپ نہ صرف مسلمانوں کے مقدس مقامات بلکہ مسیحی گرجا گھروں، خانقاہوں، اور دیگر مقدس جگہوں کو بھی نقصان پہنچا چکا ہے۔
معلولا جیسا تاریخی شہر، جو مسیحی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتا ہے، HTS اور دیگر شدت پسند گروہوں کے حملوں کا شکار ہوا۔
2. مدافعین حرم کا کردار
مدافعین حرم وہ اکثر شیعہ مسلمان ہیں جو شام اور عراق میں داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کے خلاف لڑے۔ ان کا مقصد نہ صرف مسلمانوں کے مقدس مقامات کی حفاظت تھا بلکہ وہ مسیحی ورثے کے دفاع میں بھی پیش پیش رہے۔ شام میں مدافعین حرم نے معلولا جیسے مقامات کو آزاد کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے ان مقامات کی حفاظت کی جو نہ صرف مذہبی بلکہ تاریخی طور پر بھی اہم ہیں۔
3. شہید سید حسن نصر اللہ کی قیادت
حزب اللہ کے رہنما شہید سید حسن نصر اللہ نے ہمیشہ مظلوموں اور مقبوضہ علاقوں کے دفاع کی بات کی ہے۔ ان کی قیادت میں:
لبنان میں مسیحی اور مسلمان مل کر اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کرتے رہے ہیں۔
شام میں انہوں نے حزب اللہ کے مجاہدین کو بھیجا تاکہ مسیحی اور مسلمان دونوں کے مقدس مقامات کو دہشتگردوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔
تاریخی مثالیں:
الف) لبنان کی خانہ جنگی (1975-1990)
لبنان کی خانہ جنگی کے دوران، سید حسن نصر اللہ نے مسیحی کمیونٹی کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے مسیحیوں کو اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں شامل کیا اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا۔
حزب اللہ نے مسیحی بستیوں کو اسرائیلی حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کیے۔
ب) شام کی خانہ جنگی (2011-2020)
شام میں حزب اللہ اور مدافعین حرم نے شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائیاں کیں، جن میں:
معلولا: ایک تاریخی شہر جہاں آرامی زبان بولی جاتی ہے، شدت پسندوں سے آزاد کرایا گیا۔
حلب اور دیگر مقامات: جہاں مسیحیوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی گئی۔
دنیا کی مسیحی قوم کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشتگردی کا مقابلہ مشترکہ ذمہ داری ہے۔
مسیحیوں کو ان تحریکوں کی حمایت کرنی چاہیے جو ان کے مقدس مقامات کی حفاظت کر رہی ہیں۔ دنیا کے مظلوموں کے دفاع کے لیے مسلمانوں اور مسیحیوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔
نتیجہ:
ہئیت تحریر الشام، اسرائیل، اور امریکہ کی پالیسیاں مسیحی ورثے کے لیے خطرہ ہیں۔ لیکن مزاحمتی تحریکیں اس ورثے کے تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ پوری دنیا کی مسیحی قوم کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کے کردار کو تسلیم کرے اور ان کے ساتھ کھڑی ہو تاکہ دنیا کو شدت پسندی اور دہشتگردی سے محفوظ بنایا جا سکے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد ہی کامیابی کی کنجی ہے۔
داعش کے خلاف معلولا شہر کے دفاع میں شیعہ مسلح گروہوں کا کردار نہایت اہم رہا۔ ان گروہوں نے نہ صرف اس تاریخی شہر کو شدت پسندی سے بچایا بلکہ اس کی مسیحی برادری کے تحفظ میں بھی مدد کی اور یہی بہت سے حقائق کو سمجھنے کےلیے دنیائے مسیحیت کےلیے ایک اہم ذریعہ ہے۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آپ کا تبصرہ