حوزہ نیوز ایجنسی کے خراسانِ شمالی میں نمائندہ کی رپورٹ کے مطابق خراسانِ شمالی میں نمائندہ ولی فقیہ اور شہر بجنورد کے امام جمعہ حجت الاسلام والمسلمین نوری نے ہفتۂ وحدت کی مناسبت سے شہر راز اور جرگلان کی مسجد جامع باغلق میں منعقدہ ایک تقریب میں کہ جس میں صوبہ بھر سے شیعہ سنی علماء نے شرکت کی تھی، خطاب کرتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت اور ہفتہ وحدت کے آغاز کے موقع پر مبارکباد پیش کی اور معاشرے میں حقیقی وحدت کی اہمیت اور اثرات پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا: وحدت اس وقت سیاسی، جزوی یا شخصی مفادات پر مبنی ہوتی ہے کہ جب دو ممالک ایک دوسرے کے ساتھ کسی قسم کی ثقافتی اور فکری مماثلت نہ رکھتے ہوں اور وہ محض کچھ سیاسی مقاصد اور اپنے مفادات کے حصول کے لئے متحد ہوئے ہوں۔
حجت الاسلام والمسلمین نوری نے کہا: اس طرح کا اتحاد دلوں اور عقیدے کا حقیقی اتحاد نہیں ہے بلکہ اس قسم کے جزوی اور ظاہری اتحاد کے برعکس ایک حقیقی، مستقل اور عقیدتی اتحاد ہے جو کہ شیعہ اور سنی کا اتحاد ہے۔
خراسانِ شمالی میں نمائندہ ولی فقیہ نے کہا: دشمنانِ اسلام کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ شیعہ اور سنی اتحاد صرف ایک سیاسی اور جزوی اتحاد نہیں ہے بلکہ یہ اتحاد ایک نظریاتی اتحاد ہے جو عظیم دینی و مذہبی عقائد اور نظریات سے ماخوذ ہے۔
انہوں نے کہا: شیعہ اور سنی سب کا خدا ایک، قرآن ایک، نبی ایک، مقصد ایک اور دینی راستہ بھی ایک ہے اور یہ مذہبی اصولوں اور فروعات میں بہت سے مشترکات رکھتے ہیں۔ تو پس جب ہم اپنے اعتقادات کو خدا و قرآن سے لیتے ہیں تو اس وقت ہماری وحدت عقیدتی اور نظریاتی سمت پیدا کرتی ہے اور اس سمت میں بعض سطحی اور چھوٹے فقہی اختلافات کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔
خراسانِ شمالی میں نمائندہ ولی فقیہ نے کہا: ہمارے ملک میں رہبر معظم کی دانشمندانہ قیادت میں اور اسی طرح ان سے پہلے مرحوم امام راحل (رہ) نے شیعہ اور سنیوں کے اتحاد کو انتہائی اہم اور ضروری مسئلہ قرار دیا اور آپس میں اختلافات اور توہین کو حرام قرار دیا ہے۔
انہوں نے آخر میں کہا: پس جو لوگ اسلامی معاشرہ میں مذاہب کو تقسیم کرنے اور تفرقہ پھیلانے کی بات کرتے ہیں اور دوسروں کی توہین کرتے ہیں وہ امام راحل (رہ) اور رہبر معظم انقلابِ اسلامی کے واضح فتویٰ کے خلاف عمل کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہمیں اس بات سےبھی آگاہ رہنا چاہئے کہ شیعہ و سنی کے باہمی اختلاف سے صرف ہمارے مشترکہ دشمن ہی فائدہ اٹھاتے ہیں لہذا ہم شیعہ اور سنی دونوں کو ہوشیار رہنا چاہئے اور مسلمانوں کے درمیان وحدت کو مضبوط کرنے کے لئے کام کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ بعض نافہم افراد جو کہ شعوری یا لاشعوری طور پر مسلمانوں میں اختلاف اور تفرقہ کی آگ بھڑکانے کی مذموم کوشش کرتے ہیں انہیں اس کام کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔