۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
رمضان المبارک کے تیسرے دن کی دعا

حوزہ/ اے معبود! آج کے دن مجھے ہوش اور آگاہی عطا فرما مجھے ہر طرح کی نا سمجھی اور بے راہ روی سے بچا کے رکھ اور مجھ کو ہر اس بھلائی میں سے حصہ دے جو آج تیرے جود و کرم سے نازل ہو۔ اے سب سے زیادہ عطا کرنے والے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی ماہ رمضان کی تیسرے دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں۔ ’’اَللّهُمَّ ارْزُقني فيہ الذِّهنَ وَالتَّنْبيہ وَباعِدْني فيہ مِنَ السَّفاهَۃ وَالتَّمْويہ وَاجْعَل لي نَصيباً مِن كُلِّ خَيْرٍ تُنْزِلُ فيہ بِجودِكَ يا اَجوَدَ الأجْوَدينَ‘‘

اے معبود! آج کے دن مجھے ہوش اور آگاہی عطا فرما مجھے ہر طرح کی نا سمجھی اور بے راہ روی سے بچا کے رکھ اور مجھ کو ہر اس بھلائی میں سے حصہ دے جو آج تیرے جود و کرم سے نازل ہو۔ اے سب سے زیادہ عطا کرنے والے۔

ذہن اور حافظہ اللہ کی عظیم نعمت ہے۔ اگر ہم محسوس کریں کہ ہمارے حافظہ میں پہلے والی بات نہیں رہی یا وہ کمزور ہو گیا ہے تو عین ممکن ہے کہ اس کی ایک اہم وجہ ہمارے گناہ ہوں۔

ایک شخص ایک عالم دین کے پاس آیا اور انکی خدمت میں عرض کیا کہ میرا حافظہ کمزور ہو گیا ہے تو انہوں نے فرمایا: گناہ نہ کرو۔ ان عالم نے اس کی وجہ بھی بتا دی کہ علم ایک فضیلت اور برتری ہے اور خدا فضیلت و برتری کسی گناہگار کو نہیں دے سکتا۔ لہذا جو لوگ گناہ کرتے ہیں وہ عالم نہیں بن سکتے۔ اگر چاہتے ہیں کہ عالم و دانشور بنے، لوگوں کے کام آئیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کا حافظہ قوی ہو اور حافظہ کے لئے ضروری ہے کہ انسان گناہوں کو چھوڑ دے۔

مشہور حدیث ہے کہ ’’اگر تمام برائیوں کو ایک گھر میں بند کر دیا جائے تو اسکی چابھی جھوٹ ہوگی۔‘‘ شاید اسی لئے مثل مشہور ہے۔ ’’دروغ گو حافظہ ندارد‘‘ جھوٹے انسان کو یاد نہیں رہتا۔

اسلامی معارف میں مادی اور معنوی دونوں لحاظ سے حافظہ کے قوت و ضعف پر سیر حاصل بحت ہوئی ہے۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’خَمْسٌ یَذْهَبْنَ بِالنِّسْیَانِ وَ یَزِدْنَ فِی الْحِفْظِ وَ یَذْهَبْنَ بِالْبَلْغَمِ السِّوَاکُ وَ الصِّیَامُ وَ قِرَاءَهُ الْقُرْآنِ وَ الْعَسَلُ وَ اللُّبَانُ‘‘پانچ چیزیں فراموشی کو ختم کرتی ہیں ، حافظہ کو قوی کرتی ہیں اور بلغم کو ختم کرتی ہیں ۔ مسواک کرنا، روزہ رکھنا، قرآن کریم کی تلاوت کرنا، شہد اور لوبان کو استعمال کرنا۔ (مستدک الوسائل ۔ باب اللبن ، صفحہ ۳۷۳)

ماہ رمضان کے تیسرے دن بندہ خدا کی بارگاہ میں یہی دعا کرتا ہے کہ اسے ذہن ، علم و آگہی عطا کرے اور نا سمجھی اور بے راہ روی سے دور رکھے۔ کیوں کہ انسان دنیا میں جن مشکلات میں گرفتار ہوتا ہے ان میں سے اکثر کی بنیاد جہالت اور سفاہت پر ہوتی ہے اور انسان کی بدبختی کی بنیاد بھی فقدان علم و حافظہ پر ہے۔ کیوں کہ جہاں علم اور آگہی ہو گی وہاں خوف و پریشانی نہیں ہو گی۔

ہمارے مدعا کی دلیل جناب خواجہ نصیرالدین طوسی رحمۃ اللہ علیہ کا وہ مشہور واقعہ ہے کہ جب آپ نے محل کے کچھ خاص خادموں کو کسی اور کو نہ بتانے کی تاکید کے ساتھ حکم دیا کہ رات کے سناٹے میں جب سب سو رہے ہوں تو ایک بڑی لگن چھت پر سے نیچے پھینک دینا۔ آپ نے بادشاہ کو اپنے اس اقدام سے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا لہذا جب خادموں نے لگن پھینکی تو سب ڈر گئے لیکن بادشاہ نہ ڈرا تو خواجہ نصیر الدین نے اس سے پوچھا کہ تم کیوں پریشان نہیں ہوئے؟ اس نے کہا کہ چونکہ مجھے پہلے سے اس کا علم تھا۔

اسی علم و آگہی اور ذہانت کے برخلاف سفاہت ہے ۔ سفیہ وہ ہے جو حقیقت کو نہیں سمجھتا، بعض اوقات سفاہت رشد کے مقابلے میں استعمال ہوتی ہے۔ رشد یعنی ارتقا ، رشد کا لازمہ حقیقت کا ادراک ہے پس سفاہت کا معنی نافہمی و جہالت ہے۔

بعض اہل نظر نے سفاہت کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا کہ یہ لفظ جہالت و اضطراب ، جسمانی کمزوری ہلکے پن کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اس کی ضد علم و بردباری ہے۔ یعنی سفیہ انسان کوخود پر کنٹرول نہیں ہوتا خوش ہوگا تو حد سے بڑھ جائے گا اور اگر ناراض ہوا تب بھی حد سے گذر جائے گا۔ نہ زبان پر قابو ہو گا اور نہ ہی فیصلوں میں سنجیدگی ہوگی۔

ظاہر ہے یہ سفاہت بھی جہالت ہی ہے اور جہالت میں کوئی خیر نہیں ۔ جب کہ علم ہر خیر اور نیکی کی اصل ہے۔ مولائے کائناتؑ نے فرمایا: تم جاہل کو نہیں پاؤ گے یا حد سے بڑھ جائے گا یاحد سے پیچھے رہ جائے گا۔

’’تمویہ‘‘ تنبیہ کی ضد ہے۔ تنبیہ میں انسان کو حقیقت سے آگاہ کیا جاتا ہے جب کہ تمویہ میں حق سے منحرف کر کے غیر حقیقت کو حقیقت سمجھایا جاتا ہے۔

آخر میں بندہ خدا وند عالم سے تمام خیر کی دعا کرتا ہے جو اللہ کے جود و کرم سے نازل ہو۔ ظاہر ہے جب دو جہاں کا مالک کسی کے ساتھ خیر کرے گا تو اس کا فائدہ بھی دو جہاں میں ملے گا۔ مختلف روایات ہیں جنمیں ذکر ہوا کہ جب اللہ کسی بندے کے ساتھ ارادہ خیر کرتا ہےتو کبھی اس کے گناہوں کی سزا اسی دنیا میں دے دیتا ہے، کبھی خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے علم عطا کر دیتا ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں سب سے مشہور اور اہم روایت ہے کہ جب اللہ کسی بندے کے ساتھ ارادہ خیر کرتا ہے تو اس کے دل میں امام حسین علیہ السلام کی محبت اور انکی زیارت کی چاہت ڈال دیتا ہے۔ ’’اللهم الرزقنی زیارة الحسین فی الدنیا و شفاعة الحسین فی الآخرة‘‘

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .