حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے جامع علی مسجد ماڈل ٹاﺅن میں جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے یہ بیان کیا کہ زندگی کی فرصت غنیمت ہے جسے آخرت سنوارنے کیلئے استعمال کرنا چاہیے۔ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ قرآن مجید کی سورة عبس میں ارشاد ہوا”تو جس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا،نیز اپنی ماں اور اپنے باپ سے ، اور اپنی زوجہ اور اولاد سے بھی “ یعنی ہر شخص کو اپنی فکر ہوگی اور وہ قریبی ترین رشتوں کی بھی پرواہ نہ کرے گا۔انسان کو چاہیے کہ اعمال ِصالحہ انجام دے اور اچھی باتوں کو قبول کرے۔
انہوں نے کہا کہ قرآن میں ہے کہ اچھی بات اور نصیحت ہر شخص قبول نہیں کرتا بلکہ خوفِ خدا والے اور نماز کی پابندی کرنے والے نصیحت قبول کرتے ہیں۔نماز کی پابندی کا ایک مطلب یہ ہے کہ آدمی نما زکے وقت کا انتظار کرے اور اول وقت میں ادا کرے۔آئمہ معصومین ؑ نے فرمایا ہمارا نام لینے سے کوئی شیعہ نہیں بنتا بلکہ شیعہ میں کم از کم 10 علامتیں ضروری ہیں جن میں اہم علامت اوّل وقت میں نماز ادا کرنا ہے۔بعض دین دار تاجر ایسے بھی ہوتے ہیں کہ نمازکا وقت شروع ہوتے وقت بڑے سے بڑا کاروباری معاہدہ بھی نہیں کرتے ،چاہے اس میں جتنا بھی زیادہ منافع ملنے والا ہو۔
جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر ماڈل ٹاﺅن میں خطبہ جمعہ میں سورة ¿ مبارکہ فاطر کے مطالب بیان کرتے ہوئے حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ اچھے اعمال کیلئے فکر و قلب کا پاک ہونا ضروری ہے جس کا اثر انسان کے تمام اعضاءاوراس کے کردار پر پڑتا ہے۔اگر قبر کی تیاری نہ کی تو پھر قبر کی سختیاں اس کے انتظار میں ہیں جہاں کوئی کام نہ آئے گا۔
انہوں نے مزید بیان کیا کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی عظیم عطا ہے وہ جب چاہے اسے واپس لے سکتا ہے۔وہ چاہے تو تمام انسانوں کو ختم کر دے اور نئے انسان پیدا کرے جیساکہ پہلی اُمتوں میں حضرت ِ نوحؑ ، حضرت صالحؑ ، حضرت لوطؑ کی اُمتیں عذاب سے ختم ہو گئی تھیں۔ مگر اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ حضور کے وجود کی برکت سے اور جب تک لوگ استغفار کرتے رہیں گے، عذاب نازل نہ کرے گا۔ اس وقت اجتماعی عذاب نہیں آتے لیکن اللہ کی طرف توجہ دلانے کیلئے زلزلے، سیلاب اور وبائی امراض کا سامناکرنا پڑتاہے۔
آیت اللہ حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ سورہ مبارکہ فاطر میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ”اے لوگو! تم سب اللہ کے آگے فقیر و محتاج ہو ، اللہ بے نیاز ہے“۔ اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ عام آدمی سے لے کر ارب پتی سرمایا دار اور شہنشاہ سب اللہ کے محتاج ہیں۔”فقر“ کاایک معنی ریڑھ کی ہڈی کا منکا ہے جس کے بغیر کمر ٹوٹ جاتی ہے جیساکہ حضرت امام حسین ؑ نے روزِ عاشور حضرت ِ عباس ؑ کی شہادت پر فرمایا تھا کہ میری کمرٹوٹ گئی ہے۔فقہ کی اصطلاح میں اُس نادار و تنگدست کو فقیر کہتے ہیں جس کے ضروری اخراجات پورے نہ ہوں۔مسکین اس سے بھی نچلا درجہ ہے یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ اچھے کردار اور عمل کیلئے علم ضروری ہے ۔ انسان فقط علم کے ذریعے کمالات حاصل کرتا ہے ۔ جس قدر علم بڑھتا جائے گا عقل میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔انسان کا جسم بوڑھا ہوتا ہے لیکن عقل نہیں ۔بعض علماءنے ضعیف العمری میں حیرت انگیز علمی کام سرانجام دیے جن میں محقق بزرگ تہرانی سرفہرست ہیں۔انہوں نے ضعیف العمری میں 27 جلدوں پر مشتمل ”الذریعہ الی تصانیف الشیعہ“ تالیف کی جن میں شیعہ علماءو مصنفین کی کتب کا مختصر تعارف ہے۔ یہ کتاب بعض حلقوں کے اس اعتراض کے جواب میں لکھی جن کا کہنا تھا کہ شیعہ مکتب میں کوئی خاص علمی کام نہیں ہوا۔علم کونور اور بصیرت کہا گیا ۔
آخر میں کہا کہ قرآن مجید میں متعدد آیات میں سوال کیا گیا کہ کیا عالم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ایک عالم ،علم و دانش سے آگاہی رکھنے والا صاحب نظر اور صاحب بصیرت ہوتا ہے ۔اللہ کی رحمت سے بہرہ مند ہوتا ہے ۔ حضور کو بھی علم میں اضافہ کی دعا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔حضرت علی ؑ جیسی کثیر الصفات شخصیت بھی اپنے علم پر فخر کرتے تھے ۔ فرماتے تھے کہ رسول اکرم نے مجھے جوکچھ علم عطا فرمایا اس سے علم کے ایک لاکھ دروازے مجھ پر کھل گئے۔اسی بنا پر اہل سنت کے معروف عالم دین ابن ابی الحدید کا مشہور قول ہے ”سب کا علی ؑ کی طرف محتاج ہونااورعلی ؑ کا سب سے بے نیاز ہونا آپؑ کے امام برحق ہونے کی دلیل ہے“۔