۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا سید غافر رضوی فلک چھولسی

حوزہ/ علم کے گہوارہ "المصطفیٰ انٹر نیشنل یونیورسٹی" پر پابندی عائد کردی لیکن آج کے ابوجہل کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ نور کو کبھی کسی صورت اور کسی حالت میں قید نہیں کیا جاسکتا۔

تحریر: مولانا سید غافر رضوی فلک چھولسی

حوزہ نیوز ایجنسی | علم کی فضیلت و شرافت اور جہالت کی پستی و رذالت کسی فردِ بشر پر مخفی نہیں ہے۔
شمعِ علم جلانے والے جہان بھر میں نور پھیلانے کے خواہاں ہوتے ہیں جبکہ جہالت کے حامی دنیا کو تاریکیوں میں ڈھکیلنا چاہتے ہیں۔

یہ حقیقت بھی اہلِ دنیا کے لئے آفتاب کی روشنی سے زیادہ واضح ہے کہ روشن فکری کے دعویدار محض زبانی دعوے ہی کرتے ہیں لیکن اگر ان کے باطن کو کھنگالا جائے تو وہی مثال صادق آتی ہے کہ "گندگی پر خوبصورت گھاس اگ آئی ہے"۔
اکثر و بیشتر یہ بات سننے میں آتی ہے کہ تاریخ دوہرادی گئی، جی ہاں تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی رہتی ہے تاکہ دنیا والوں کے لئے عبرت کا سبب بن سکے۔ جیسے چودہ سو سال پہلے ابو جہل صفت افراد نے اپنی علم دشمنی کا طرح طرح سے اظہار کیا اسی طرح آج بھی زمانہ کا ابوجہل تلملا رہا ہے کیونکہ وہ علم کی فضیلت کو برداشت نہیں کر پا رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ علم کے گہوارہ "المصطفیٰ انٹر نیشنل یونیورسٹی" پر پابندی عائد کردی لیکن آج کے ابوجہل کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ نور کو کبھی کسی صورت اور کسی حالت میں قید نہیں کیا جاسکتا۔

روایات کی روشنی سے واضح ہوتا ہے کہ علم ایک نور ہے، اللہ جس کے دل میں چاہے اس نور کو روشن کردیتا ہے۔
علم کے دشمنوں کی عقلیں اتنی اسیرِ دنیا ہوچکی ہیں کہ انہیں اب اچھے برے کی تمیز بھی نہیں رہی۔ نکتہ کی بات تو یہ ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانہ کا ابوجہل علم کی روشنی کو قید نہیں کرپایا تو آج کل کے یہ ابوجہل کے چھوٹے چھوٹے چمچے ، علم سے بیزاری کا ثبوت دے کر نورِ علم کو کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کے آغاز سے آج تک علم و جہل کے درمیان دشمنی رہی ہے اور یہ دشمنی ختم ہونے والی نہیں ہے کیونکہ ایک آسمان کی بلندی ہے تو دوسرا زمین کی پستی، ایک نور ہے تو دوسرا تاریکی، ایک شرافت کا مجسمہ ہے تو دوسرا رذالت کا ترجمان۔ خدا گواہ ہے کہ یہ سب ایک دوسرے کی ضد ہیں جو کبھی ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ نہ تو آسمان و زمین ایک ساتھ ہوسکتے ہیں۔ نہ نور و ظلمت کی دوستی ممکن ہے اور نہ ہی شرافت و رذالت ایک ساتھ جمع ہوسکتی ہیں۔

علم حق ہے تو جہل باطل ہے، جب حق آتا ہے تو باطل کافور ہوجاتا ہے اور باطل تو نابود ہونے والی ہی چیز ہے۔
باطل کو کبھی یہ گوارا نہیں ہوا کہ حق کا بول بالا ہو لیکن تاریخ  کے ہر جھرونکے سے یہ صدا سنائی دیتی رہی کہ حق ہمیشہ بلند ہے اور اس سے زیادہ بلند کوئی چیز نہیں۔
دنیا والے لاکھ اپنی دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے شمعِ علم کو گل کرنا چاہیں لیکن۔۔۔
"آندھی سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا"

علم وہ چراغ ہے جو زمانہ کی بادِ سموم سے گل نہیں ہوتا بلکہ کفر و طغیان کے طوفانوں کا رخ موڑ دیتا ہے۔

"والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ"

تبصرہ ارسال

You are replying to: .