۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
استاذ العلماء حضرت آیت اللہ سید محمد یار نقوی النجفی

حوزہ/ استاذ العلماء آیت اللہ سید محمد یار نجفی رہ برصغیر کے ایک عظیم عالم دین اور فقیہ، آج آپ کی برسی کے موقع پر آپکی حیات طیبہ پر خصوصی تحریر از قلم مولانا سید حسن رضا نقوی، نزیل حوزہ علمیہ قم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ 

تحریر: مولانا سید حسن رضا نقوی، نزیل حوزہ علمیہ قم 

ولادت
حوزہ نیوز ایجنسی | استاذالعلماء آیت اللہ سید محمد یار نجفی رہ ایک عظیم عالم دین اور فقیہ ہیں آپ 12مئی1913 ء کو بمقام چاہ پیر بخش والا مضافات علی پور میں پیدا ہوئے آپ کے والد سید اللہ وسایا نقوی ایک متدین اور دیندار شخص تھے آپ کی دادی معظمہ جن کی کوشش کا نتیجہ آج پاکستان میں جہاں تشیع کا روشن چہرہ موجود ہے وہاں دنیا کے چپہ چپہ پہ مبلغین مکتب موجود ہیں آپ ٩ بھائی تھے جن میں سے ٦ کا نوجوانی میں انتقال ہوگیا تھا آپ تین بھائی صاحب اولاد ہوئے سب سے بڑے بھائی سید الاعلام سید غلام سرور نقوی رہ والد محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی رہ و حجت الاسلام مولانا سید باقر حسین نقوی دوسرے نمبر پہ سید الاعلام مروج الاحکام سید حسین بخش نقوی رہ والد حضرت آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی حفظہ اللہ آپ سب سے چھوٹے بھائی تھے بچپن میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا آپ کی پرورش اور تربیت آپ کے بھائی سید غلام سرور نقوی مرحوم نے کی ۔
آپ نے 1933ء میں میٹرک پاس کیا اسی سال محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم کی ولادت ہوئی تھی۔

قبلہ کی زندگی کے کچھ اہم واقعات
میٹرک کے بعد آپ کو علی پور میں تھانے داری کی دعوت آئی، ان دنوں اپنے گھر کے پاس آپ کسی سردار پلو خان کے جلسہ میں موجودہ امام بارگاہ بنام حسینہ جتوئی چوک میں مجلس سننے کی غرض سے گئے، وہاں جو مولانا مجلس پڑھ رہے تھے، انہوں نے اپنی تقریر کے دوران یہ جملہ کہا آج تو میں نے مجلس پڑھی ہے کل انشاءاللہ قرآن کی تفسیر بیان کرونگا" علم تو ورثہ تھا سادات کا مگر اس ورثے کو ہم امتیوں نے اپنایا ہے" کیونکہ وہ دور قحط الرجال کا تھا یعنی کے اس دور میں شیعہ عالم نماز جنازہ کے لیے بھی میسر نہیں ہوا کرتے تھے اور اس دور میں علم کی نوعیت یہ تھی کے جس کو نماز جعفریہ بھی آیا کرتی تھی اس کو بھت بڑا عالم سمجھا جاتا تھا لہذا آپ نے دعوت تھانہ داری ٹھکرا کر علوم محمد و آل محمدؑ کو پڑھنے کا فیصلہ کیا اور آپ نے اللہ سے دعا مانگی " اے اللہ اس عالم کو اتنی زندگی دے اور مجھے اتنا علم دے کے ایک دن یہی عالم خود مجھ سے مسئلہ پوچھنے کے لیے میری محضر میں کھڑا ہو" اور ایک دن اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی لے آیا کے مدرسہ باب العلوم ملتان میں آپ کو مجلس پڑھنے کی دعوت تھی اور قدرت کا کرنا ایسا ہوا کے آپ اور وہ مولانا ایک ہی جگہ پر مجلس پڑھنے کے لیے مدعو کیے گئے تھے، انہوں نے آپ سے مسئلہ پوچھا اور آپ نے ان کا سوال سنتے ہی اللہ کے بارگاہ میں سجدہ شکر ادا کیا اور خندہ پیشانی سے ان کے مسئلے کا جواب دیا۔

دینی تعلیم کا آغاز
آپ نے اس مولانا کی بات سننے کے بعد وہی ساتھ مسجد میں داخلہ۔ لیا اور چند ہی دنوں میں قرآن مجید ختم کیا اور اس کے بعد گھر واپس آئے اپنے بڑے بھائی جناب سید غلام سرور نقوی جنہیں آپ اپنا والد کہتے تھے ان سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو اسوقت انہوں نے آپ کے لیے اپنی زمین کا ایک حصہ (بیگھا) بیچ کر آپ کو علوم آل محمد کی تحصیل کے لیے روانہ کیا باب العلوم ملتان میں داخل ہوئے حضرت مولانا شیخ محمد یارؒ سے اخذ فیض کیا پھر آپ مربی العلماء علامہ سید محمد باقر نقوی چکڑالوی  کی خدمت میں حاضر ہوئے جہاں درس نظامی کی بقایا کتابوں کی تعلیم حاصل کی وہاں طب کی بھی بعض کتب پڑھی کچھ عرصہ آپ مولانا طالب حسینؒ کی خدمت میں بھی رہے چند دن مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ میں بھی گزارے اس کے بعد آپ حنفیوں کے مشہور مدرسے جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور تشریف لے گئے جہاں حضرت مولانا حافظ مہر محمد اچھروی (م1374ھ)سے معقولات کتابیں پڑھیں اس کے بعد آپ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے نجف اشرف تشریف لے گئے۔

اساتذہ کرام نجف اشراف
آیت اللہ علامہ آغا سید حسین رہ 
آیت اللہ علامہ آغا شیخ محمد طہرانی رہ
آیت اللہ العظمیٰ علامہ سید محمد جواد تبریزی رہ
آیت اللہ العظمی شیخ عبدالحسین رشتی رہ
آیت اللہ علامہ مرزامحمد باقر زنجانی رہ 

پاکستان اساتذہ کرام
حضرت مولانا حافظ مہر محمد اچھروی
مولانا شیخ محمد یار آف لیہ
مربی العلماء علامہ سید محمد باقر نقوی 

دینی خدمات اور وطن واپسی
آپ 1942 ء میں وطن واپس آئے ابتدا میں اپنے استاذی المکرم علامہ سید محمد باقر نقوی کی سرپرستی میں چک38 ء تحصیل خانیوال میں تدریس فرماتے رہے اس کے بعد باب العلوم ملتان ،ٹھٹھہ،سیال،سیت پور ،ضلع مظفر گڑھ، جلالپور، نگیانہ اور خوشاب کے مدارس میں علوم اھلبیت علیہم السلام کو عام کیا1961ء میں آپ اپنے آبائی شہر علی پور تشریف لائے اور دار الہدیٰ محمدیہ کی بنیاد رکھی اور تا دم تحریر یہیں پر درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے تحریر کے ساتھ ساتھ تحریر کی طرف متوجہ تھے اصول فقہ اور تفسیر قرآن کے مسودے موجود ہیں ۔

خصوصیات 
تدریس، مجالس، تذکرہ التوحید، مصائب جناب سیدہ فاطمہ زہراء پر بے انتہا گریہ کرنا، مصائب محمد آل محمد بیان کرنا، اپنے شاگردان پر بے انتہا شفقت کرنا۔

شاگردان
شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفیؒ
آیت اللہ علامہ حسین بخش جاڑا مرحوم
آیت اللہ محمد حسین نجفی (ڈھکو)حفظہ اللہ
ملک العلماء علامہ ملک اعجاز حسین نجفی دام عزہ
حضرت آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی حفظہ اللہ
محسن ملت ابوذر زمان علامہ سید صفدر حسین نجفی
زین الاتقیاء علامہ سید گلاب علی شاہ نقوی مدرس اعلیٰ مدرسہ مخذن العلوم ملتان
علامہ غلام حسین نجفی شہید (لاہور)
علامہ نصیر حسین نجفی (علی پور چٹھہ)
علامہ سید امیر حسین حسینی (پرنسپل جامعہ علمیہ کراچی)
مولاناسید عطاءالرحمٰن نقوی مرحوم 
علامہ رضاحسین عمرانی
مولانا محمد حسین سدھو پورا (فیصل آباد)
علامہ قاضی سید نیاز حسین نقوی مرحوم (مہتمم اعلیٰ جامعۃ المنتظر لاہور)
حجت الاسلام والمسلمین علامہ سید مرید حسین نقوی (پرنسپل جامعہ مدینۃ العلم ڈنمارک)
مولانا چودھری عمار یاسر (چکوال)
حجت الاسلام مولانا سید باقر حسین نقوی دام عزہ
قائد ملت جعفری پاکستان حضرت علامہ سید ساجد علی نقوی دام عزہ
مناظر اسلام مولانا محمد اسماعیل مرحوم
حضرت آیت اللہ آقای حسن رضا غدیری (لندن)
حجت الاسلام والمسلمین علامہ قاضی سید فیاض حسین نقوی (پرسپل جامعہ علمیہ کراچی)

علمی مقام
قبلہ استاذ العلماء انتہائی سادگی کے مالک تھے کلمہ حق کہنے میں اپنی مثال آپ تھے محراب منبر بڑی سے بڑی شخصیت کو بھی ٹوک دیتے تھے وہ سامنے ہی کیوں نہ بیٹھا ہو۔

فرزندان 
علامہ حافظ سید محمد سبطین نقوی پرنسپل جامعہ عربیہ ممتاز المدارس وزیرآباد
(25جولائی 1947تا15اپریل 1954) 47 برس

علامہ حافظ سید محمد حسنین نقوی
(پرنسپل جامعہ علمیہ دارالہدیٰ محمدیہ علی پور ضلع مظفر گڑھ)

(28اگست1950تا23جون2003) 53 برس

علامہ حافظ سید محمد ثقلین نقوی شہید (پرنسپل جامعہ دارالہدیٰ محمدیہ علی پور ضلع مظفر گڑھ )
(28نومبر 1952تا27فروری2012)60 برس

مولانا حافظ سید محمد سیدین نقوی پیش امام مسجد محمد یار شاہ موزہ مکول ھڈیر بکھن شاہ
(1955تا 2013) 55 برس

آپ کی دو دختر دونوں حافظہ قرآن آپ نے اپنی پوری زندگی سادگی کے ساتھ ترویج علوم اہلبیت ع میں گزاری لہذا زندہ قومیں اپنے محسنین کو یاد رکھتی ہیں ہمیں ایسے محسنین کی خدمات حالات زندگی نوجوان نسل تک خصوصا طلاب حوزات علمیہ تک پہنچایا جائے تاکہ ان کی سیرت و کردار کو دیکھتے ہوئے عملی میدان میں آگے بڑھے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .