حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت آیت اللہ سبحانی نے امام صادق علیہ السلام انسٹیٹیوٹ میں منعقد ہونے والے اپنے آخری ہفتہ وار درسِ اخلاق میں خوش اخلاقی اور حسن سلوک کی فردی و اجتماعی زندگی میں اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
تمام انسان مال و دولت میں برابر نہیں ہوتے، بعض لوگ اپنی دولت کی وجہ سے خیرات کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں، لیکن ایک ایسی دولت سب کے پاس موجود ہے جس سے ہر کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے، اور وہ دولت ہے "خوش اخلاقی" یعنی انسان کی گفتار اور کردار میں حسنِ سلوک۔
انہوں نے مزید فرمایا: اخلاقِ حسنہ ایک ایسی عمومی دولت ہے جس سے ہر شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا سکتا ہے۔ حضرت لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ اگر تمہارے پاس مال نہیں کہ اپنے رشتہ داروں کی مالی مدد کر سکو تو اچھی اخلاق کے ذریعے ان کا دل جیتو اور ان کی عزت کرو۔
آیت اللہ سبحانی نے اس بات پر زور دیا کہ خوش اخلاقی کا تعلق انسان کی فطرت اور خلقت سے ہونا چاہیے۔ اگر حسنِ خلق مصنوعی ہو، یعنی صرف لوگوں کے سامنے ظاہری طور پر اخلاق کا مظاہرہ کیا جائے تو وہ دیرپا نہیں ہوتا۔ محبت دل سے نکلنی چاہیے تاکہ اس کی قدر و قیمت باقی رہے۔
گناہگاروں کے ساتھ نرمی مناسب نہیں
آیت اللہ سبحانی نے فرمایا: گناہگاروں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا مناسب نہیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا) مختلف درجات رکھتا ہے، ان میں سے ایک مرحلہ یہ بھی ہے کہ گناہ کرنے والے سے سخت لہجے اور غصے کے ساتھ بات کی جائے۔ اس لیے گناہگاروں سے خوش اخلاقی اور نرمی سے پیش آنا درست نہیں۔
انہوں نے حسنِ اخلاق کی حفاظت اور اس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا: ہم اگر مسلسل کوشش کریں اور مشق کریں تو خوش اخلاقی کو اپنی ذات میں محفوظ رکھ سکتے ہیں، لیکن یہ صبر اور تحمل کے بغیر ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر، خواجہ نصیر الدین طوسی کے بارے میں نقل ہے کہ جب کسی نے انہیں توہین آمیز خط لکھا، تو انہوں نے جواب میں لکھا: "میں نے آپ کا خط پڑھا، لیکن جو باتیں آپ نے لکھی ہیں وہ مجھ پر صادق نہیں آتیں" — یعنی انہوں نے نرم لہجے میں جواب دیا اور حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کیا۔
آیت اللہ سبحانی نے فرمایا: خواجہ نصیر الدین طوسی، انبیاء اور اسلامی تعلیمات کے مکتب میں تربیت یافتہ تھے۔ حضرت یوسفؑ کا واقعہ سب نے سنا ہے کہ انہیں کنویں میں پھینک دیا گیا، لیکن وہ مصر کے وزیر بنے اور آخرکار اپنے بھائیوں کو معاف کر دیا، جنہیں وہ فوت شدہ سمجھتے تھے۔ اسی طرح رسول اکرم (ص) کو قریش کی طرف سے بارہا اذیتیں پہنچیں، لیکن آپ (ص) نے فتح مکہ کے دن ان سب کو معاف فرما دیا۔ خواجہ نصیر بھی انہی انبیائے کرام کے مکتب کے تربیت یافتہ تھے۔
آخر میں حضرت آیت اللہ سبحانی نے حضرت امام حسن علیہ السلام کی سیرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: معاویہ نے شام میں امیر المؤمنین (ع) اور ان کے فرزندوں کے خلاف بہت پروپیگنڈہ کیا تھا۔ ایک دن ایک شامی شخص مدینہ آیا اور امام حسن علیہ السلام کو سخت برا بھلا کہا۔ لیکن امام نے نہایت خندہ پیشانی اور اچھے اخلاق سے اس کی مہمان نوازی کی، جس سے وہ شامی شخص شرمندہ ہو گیا، پشیمان ہوا اور حقیقت کو پہچان گیا۔
آیت اللہ سبحانی نے فرمایا: حسنِ اخلاق نے اہل بیت علیہم السلام کی محبت کو ہمارے دلوں میں زندہ رکھا ہے۔ اگر ہم لوگوں کے ساتھ بدسلوکی کریں گے تو وہ ہم سے دور ہو جائیں گے۔









آپ کا تبصرہ