۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
News ID: 375039
7 دسمبر 2021 - 09:43
مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ/ ارتداد کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں حقانیت دین کا مسئلہ ہے ایک مرتد دین سے پھرتا ہے تو دین سے نہیں پھرتا بلکہ اپنے عمل سے دین کی حقانیت پر وار کرتا ہے لہذا دین میں اسکی سزا بھی سخت رکھی گئی ہے۔

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسیگزشتہ تحریر میں ہم نے ارتداد کے سلسلہ سے قرآن وحدیث کی روشنی میں ارتداد کی سزا و اس جرم کی سنگینی کو بیان کرتے ہوئے قرآن کریم کی جانب سے دئے گئے اس انتباہ کو بیان کیا جو خاص طور پر قرآن نے ان لوگوں کو دیا ہے جنکا رابطہ مشرکین و اہل کتاب سے ہے اور اسی رابطہ کی بنیاد پر ممکن ہے جو انکی باتوں میں آ کر اپنے دین سے ہاتھ دھو بیٹھیں ، پیش نظر تحریر کے اس آخری حصے میں ہم اس بات کو بیان کریں گے کہ ہمیں کسی کے ارتداد کے بارے میں کیسے پتہ چلے گا کہ وہ مرتد ہے ؟ اور ارتداد کے آثار و نتائج کیا ہیں نیز مرتد کی اتنی سخت سزا کیوں ہے ؟

کیسے پتہ چلے کہ فلاں شخص مرتد ہو گیا ہے :
الف: خود مرتد کے اقرار کرنے سے۔
ب: دوسرا طریقہ: بینہ کے ذریعے۔ یعنی دو عادل مرد کسی شخص کے متعلق ارتداد کی گواہی دیں۔۱

جس شخص کے بارے میں دو عادل افراد نے گواہی دی ہو تو اگر وہ شخص کہے کہ مجھ سے خطا ہوئی تو اس کی بات کو قبول کیا جائے گا۔ اسی طرح اس شخص کی بات کو بھی قبول کیا جائے گا جو کہے کہ میں اس کام پر مجبور تھا اور اس پر کوئی قرینہ دلالت کرنے والا موجود ہو۔ بعض فقہا کا کہنا ہے کہ اگر کوئی تحقیق کی بنا پر شُبہ سے دوچار ہو جائے۔۲۔ اور دین اسلام سے لوٹ جائے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔۳۔ کیونکہ شبہ کی موجودگی میں حد شرعی کی احادیث پر عمل نہیں ہونا چاہئے۴۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض علماء کے درمیان یہ بحث ہے کہ ارتداد کا حکم ثابت ہے یا اس کو تعزیزی حیثیت حاصل ہے۵۔

دور حاضر میں ارتداد کی بنیاد پر جس کے واجب القتل ہونے کا فتوی دیا گیا اسے لوگ سلمان رشدی کے نام سے پہچانتے ہیں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے تاریخی فتوے نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا دیا اور محض بڑی بڑی باتیں کرنے والوں کو ایک فقہیہ نے اپنے فتوی سے بتایا کہ دفاع رسالت کس طرح کیا جاتا ہے رسول اللہ کے ظاہری کمالات کو بیان کرنا اور جھومنا اور ہے اور رسول اللہ ص سے قلبی لگاو اور ایمانی تعلق اور ہے ۔

ارتداد کے آثار و نتائج :
ارتداد کے کچھ ظاہری آثار ہیں جو دنیا میں مرتب ہوتے ہیں کچھ آثار باطنی ہیں جنکا تعلق آخرت سے ہے ،البتہ کچھ آثار وہ ہیں جنکا یوں تو دنیا میں اثر نہیں دکھتا اس لئے کہ انکا تعلق آخرت کی سزا سے ہے لیکن صاحبان معرفت اس دنیا میں بھی ان اثرات کو محسوس کر سکتے ہیں جیسے مرتد مغضوب پروردگار ہوتا ہے اب اسکی سزا آخرت میں جو ہے سو ہے لیکن خدا کے نزدیک مورد غضب ہونے کی بنا پر دنیا میں بھی اسکو جگہ جگہ ذلتیں ہی اٹھانا پڑتی ہیں ہم یہاں پر کچھ دنیاوی آثار کے ساتھ ان اخروی آثار کو بہت ہی اختصار کے ساتھ پیش کر رہے ہیں جنہیں قرآن کریم نے بیان کیا ہے :

نکاح کا باطل ہو جانا :
ارتداد کے سلسلہ سے ایک اہم بات یہ ہے ارتداد کی وجہ سے مرتد نجس شمار ہوتا ہے البتہ یوں تو توبہ کا دروازہ سب کے لئے کھلا ہے یہ اور بات ہے کہ اکثر فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ خاتون کو ارتداد کی سزا میں کچھ استثنات حاصل ہیں لیکن مرد اگر مرتد فطری ہے ہے تو اسکی توبہ بھی اسکی موت کی سزا کو نہیں ٹلوا سکتی ہے۶۔ مرتد سے کسی شادی جائز نہیں ہے اگر کوئی نکاح کے بعد اور ہمبستری سے پہلے مرتد ہو جائے تو یہ عقد باطل ہے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص شادی کے بعد مرتد فطری ہو جائے تو عقد باطل ہو جائے گا۔ اگر عورت مرتد فطری یا ملی ہو جائے اگر وہ عورت عدت میں توبہ نہ کرے تو نکاح باطل ہے ورنہ عقد صحیح رہے گا۔

ارتداد کا ایک اثر یہ ہے کہ مرتد کا نکاح باقی نہیں رہتا :
ارشاد ہوتا ہے : ایمان والو جب تمہارے پاس ہجرت کرنے والی مومن عورتیں آئیںتو پہلے ان کا امتحان کرو کہ اللہ ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے پھر اگر تم بھی دیکھو کہ یہ مومنہ ہیں توخبردار انہیں کفاّر کی طرف واپس نہ کرنا - نہ وہ ان کے لئے حلال ہیں اور نہ یہ ان کے لئے حلال ہیں اور جو خرچہ کفاّر نے مہر کا دیا ہے وہ انہیں واپس کردو اور تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے۷ ۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے : اللہ نے کافرین کے لئے مومنین پر کوئی راہ فرار نہیں دی ہے۸۔

غضب الہی :
ایک مرتد انسان الہی دین کو چھوڑ کر شیطانی راستے پر چلنے کی بنا پر مورد غضب پروردگا ر قرار پاتا ہے
ارشاد ہوتا ہے : جو لوگ اپنے سینوں کو کفر کے لئے کھول دیتے ہیں ن پر اللہ غضبناک ہوتا ہے۹۔

برے اعمال کو اچھا دیکھنا :
جب انسان دین سے پلٹ جاتا ہے تو شیطان اس پر مسلط ہو جاتا ہے اور اس کے غلط کاموں کو بھی اچھے پیرایے میں سجا کر پیش کرتا ہے چنانچہ مفہوم آیت یہ ہے :
اور جو حق کے واضح ہو جانے کے بعد بھی اپنے پیچھے کی طرف پلٹ جاتے ہیں شیطان انکے اعمال کو سجا سنوار کر انکی نظروں میں اچھا بنا دیتا ہے۱۰۔

خدا اور ملائک کی لعنت اور مہلت کا ختم ہو جانا :
جو دین خدا کا انکار کرتا ہے اور مرتد ہو جاتا ہے اس پر اللہ کے ساتھ ملائکہ بھی لعنت بھیجتے ہیں اور ایسے شخص کو اب مہلت بھی نہیں ملتی چنانچہ قرآن نے اس لعنت کو مرتد کی سزا کے طور پر اس طربح بیان کیا ہے :
"وہ خود گواہ ہے کہ رسول برحق ہے اور ان کے پاس کھلی نشانیاں بھی آچکی ہیں بیشک خدا ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا ان لوگوں کی جزا یہ ہے کہ ان پر خدا ً ملائکہ اور انسان سب کی لعنت ہے یہ ہمیشہ اسی لعنت میں گرفتار رہیں گے .ان کے عذاب میں تخفیف نہ ہوگی اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی" ۱۱۔

خدا کی مدد سے محرومی :
ارتداد کا ایک اثر یہ ہے کہ مرتد انسان اللہ کی مدد سے محروم ہو جاتا ہے اور جو اللہ کی مدد سے محروم ہو جاتا ہے وہ دنیا میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتا ہے قرآن کریم واضح طور پر اعلان کر رہا ہے : خدا اس قوم کو کس طرح ہدایت دے گا جو ایمان کے بعد کافر ہوگئی ۱۲۔

اعمال کا خاک ہو جانا { حبط اعمال }:
ارتداد کا ایک بڑا ثر یہ مرتب ہوتا ہے کہ جو اعمال بھی اس نے کئے ہیں سب ضبط ہو جاتے ہیں سارے اعمال خاک ہو جاتے ہیں اس کے پاس کچھ نہیں بچتا یعنی ایک انسان نے اگر ساٹھ سال تک بہت ہی اچھی زندگی گزاری ہمیشہ اللہ کی اطاعت کی ائمہ طاہرین علیھم السلام کی پیروی کی خدا کے بتائے راستے پر چلا نیکیاں کیں ، نمازیں پڑھیں انفاق کیا لیکن ساٹھ سال کے بعد دین سے پھر گیا تو اب جو کچھ اس نے نیک کاموں کے طور پر کیا تھا اسے ان کاموں کا ثواب نہیں ملے گا بلکہ اس کے نیک اعمال حبط کر لئے جائیں قرآن کریم اس سلسلہ سے فرماتا ہے :
اور جو بھی ایمان سے نکار کرے گا اس کے اعمال یقینا برباد ہوجائیں گے اور وہ آخرت میں گھاٹا اُٹھانے والوں میں ہوگا۱۳۔
ایک اور مقام پر بہت واضح طور پر حبط اعمال کے سلسلہ سے ارشاد ہوتا ہے :
"اور جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا اور کفر کی حالت میں مر جائے گا اس کے سارے اعمال برباد ہوجائیں گئے اور وہ جہنّمی ہوگا اور وہیں ہمیشہ رہے گا" ۱۴۔

مرتد کی سزا، اتنی سخت کیوں ؟
ارتداد کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں حقانیت دین کا مسئلہ ہے ایک مرتد دین سے پھرتا ہے تو دین سے نہیں پھرتا بلکہ اپنے عمل سے دین کی حقانیت پر وار کرتا ہے لہذا دین میں اسکی سزا بھی سخت رکھی گئی ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ۱۵۔: کچھ لوگ بس یہ دیکھتے ہیں کہ کسی کو قتل کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے یہ غلط ہے جب کہ یہ نہیں دیکھتے یہ حکم کیوں دیا جا رہا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ آج کل یہ ایک سوال بہت لوگوں کے ذہنوں میں گردش کرتا نظر آ رہا ہے کہ آخر ارتداد کی اتنی بڑی سزا کیوں ہے ؟ جبکہ اگر دیکھا جائے تو ارتداد کی سزا ہمیشہ ہی سخت رہی ہے اور اسلام سے پہلے کے ادیان میں اس پر سختی کے ساتھ عمل ہوتا رہا ہے یہ بات قابل غور ہے کہ یہ محض اسلام نہیں ہے جس نے مرتد کی سزا کو اتنا سخت رکھا ہے بلکہ ارتداد کی سزا دیگر ادیان میں بھی بہت سخت ہے چنانچہ قدیمی ترین دینی مآخذ جس میں ارتداد کی سزا کو سنگسار کے طور پر بیان کیا گیا ہے وہ توراۃ ہے۱۶۔ اسکے بعد یہودیوں کی دیگر مذہبی کتابوں میں اسکا تذکرہ ملتا ہے۱۷۔ علاوہ از ایں یہودیوں کے یہاں بہت واضح طور پر یہ بیان ہوا ہے کہ انکے آئین کے مطابق مرتد کون ہے اور صراحت کے ساتھ انکے یہاں یہ بات ذکر ہے کہ اگر کوئی انکے دین کے بنیادی ارکان کا منکر وہ جائے تو وہ مرتد ہے اور اسکی سزا نابودی و تباہی ہے۱۸۔
عیسائیوں میں بھی میراث سے محرومیت مرتد کی گواہی کو قبول نہ کرنا اسے انسانی معاشرے سے الگ کردینے جیسے مختلف عناوین کے تحت سزا کو بیان کرتے ہوئے۱۹۔ واجب القتل جانا گیا ہے اور مرتد کی سزا کو بہت ہی دردناک قرار دیا گیا ہے۲۰۔
مونٹسکو نے روح القوانین میں باقاعدہ تشدد آمیز سزا پر اپنا موقف بیان کرتے ہوئے مختلف سزاووں کی درجہ بندی کرتے ہوئے شدت پسندانہ طرز پر تنقید کی ہے۲۱۔ مونٹیسکو نے نمونے کے طور پر اس شخص کی سزا کو بیان کیا ہے جس کے بارے میں یہ الزام تھا کہ اس نے جناب مریم کی توہین کی ہے اور اس کی سزا یہ تھی کہ زندہ زندہ اسکی کھال کو ادھیڑ دیا جائے۲۲۔ اس سزا پر روح القوانین میں منٹسکو نے بہت تنقید کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مسیحت میں ارتداد کی سزا اتنی سخت ہے کہ دانشور طبقہ ہمیشہ اس کے خلاف آواز اٹھاتا رہا ہے اور اگر فی الوقت کہیں اس پر عمل نہیں ہوتا تو اسکا تعلق دین سے نہیں ہے یہ اپنی من مانی ہے جہاں تک زرتشتیوں کی بات ہے توزرتشتیوں کے یہاں بھی توہین مذہب و ارتداد کی بہت ہلکی سزا سزائے موت قرار دی گئی ہے۲۳۔ چنانچہ خسرو پرویز کے سلسلہ سے ملتا ہے کہ روم سے نکلتے نکلتے خسرو نے واضح طور پر اعلان کیا جو بھی دین زردشت سے عیسائیت میں چلا گیا اس کی سزا موت ہوگی کسی کو حق نہیں اپنے دین کو چھوڑ کر مسیحت کو اختیار کرے۲۴۔ قابل ذکر ہے کہ ابن مسکویہ نے "دستگرد" کا ایک طولانی واقعہ بیان کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح دین سے پھر جانے والوں کو سزا دی جاتی ہے یہ واقعہ خود ابن مسکویہ نے اپنی زبانی نقل کیا ہے کہ جب ایک پورے گروہ کو جو بادشاہ وقت کی نظر میں دین سے پھر گیا تھا انکے انحراف کی بنا پر قتل کر دیا گیا تھا ۲۵ ۔ ارتداد کی سزا دیگر ادیان میں کیا ہے یہ ایک الگ موضوع ہے ہم نے اشارے کی حد تک اس لئے بعض نمونوں کو پیش کیا کہ کوئی یہ تصور نہ کرے کہ اسلام نے ہی اتنی سختی کی ہے دیگر ادیان میں اس طرح کا کوئی تصور نہیں ہے جہاں تک سختی کی بات ہے تو آپ دیکھیں وہ دین جو موعظہ حسنہ و جدال احسن کی بات کر رہا ہے وہ اسی سورہ میں گفتگو کر رہا ہے جس میں کفر کے سلسلہ سے سینہ کو کشادہ کرنے والے لوگوں کی سزا کو قرآن نے بیان کیا ہے اور اس کے بعد یہ آیت ہے جس میں حکمت و جدال احسن سے کام لینے کی بات کی گئی ہے اور صرف اتنا ہی نہیں اپنے حبیب سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ ہے۲۶۔ موعظہ حسنہ اور جدال احسن سے کی بات کرنے والی کتاب یقینا اگر دین سے پھر جانے والے لوگوں کی سزا کی بات کر رہی ہے تو سبھی کے لئے قابل غور ہے ایسا کیوں ہے چنانچہ علماء نے اسکی وجہ کو بیان کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ارتدا د کی سخت سزا اس لئے دین میں رکھی گئ ہے کہ اس سزا کو پیش نظر رکھ کر سوچ سمجھ کر انسان دین تبدیل کرے کہ اسکی یہ سزا دین میں قرار دی گئی ہے لہذا کسی کے بہکاوے میں نہ آئے دوسری بات یہاں پر یہ ہے کہ اس کے ذریعہ دین نے چاہا ہے کہ مسلمانوں کے عقیدے کو کمزور کرنے سے روکا جائے کیونکہ اسلام اس بات کی قطعی طور پر اجازت نہیں دیتا کہ اسلام کے مخالفین اسلام کو کمزور کرنے کی غرض سے اسلام قبول کریں اور پھر اسلام سے واپس دوسرے دین پر لوٹ جائیں۔
حاصل بحث :

اب تک ہم نے جو کچھ بیان کیا اس سے واضح ہوا :
- ارتداد ایک ایسا گناہ ہے جو پیدائشی مسلمان کی جانب سے ہو تو اسکی کوئی معافی نہیں ہے اس کی سزا قتل ہے
-لغت میں ارتداد پلٹ جانے کو کہتے ہیں جبکہ اصطلاح میں دین اسلام سے خارج ہونے کو ارتداد کہا جاتا ہے اوراسلام سے پھر جانے والے شخص کو مُرْتَد کہتے ہیں۔
-جب کوئی مسلمان وجود خدا یا حقانیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا دین اسلام کی حقیقت کا منکر ہو جائے اور اسے خود ساختہ قرار دے یا پھر دینی مقدسات جیسےقرآن کی توہین کرے اہلبیت اطہار علیھم السلام کا مذاق اڑائے دین کے ضروری احکام جیسے نماز و روزہ، حج وغیرہ کا انکار کرے تواسکا مطلب ہے وہ اس دین سے پھر گیا ہے جسے وہ مانتا تھا اگر اس دین کو مان رہا ہوتا تو کھلم کھلا دین کا مذاق نہ اڑاتا اور ضروریات مذہب کا انکار نہ کرتا۔
- مرتد فطری اس شخص کو کہا جاتا ہے جو پیدائشی طور پر مسلمان ہو؛ یعنی اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک مسلمان ہومرتد ملی اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک مسلمان نہ ہو لیکن کوئی وہ خود بالغ ہونے کے بعد اسلام قبول کرے اور پھر بعد میں اسلام سے پھر جائے۔
-ارتداد کی سزا محض اسلام میں ہی سخت نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی دیگر ادیان میں ارتداد کی سزا موت ہی رہی ہے اسلام نے البتہ اس میں شرائط قیود لگا کر بے گناہ انسان کو سزا سے بچا لیا ہے یہی وجہ ہے کہ مجبور انسان یا کسی شبہے کی وجہ سے مشکل میں گرفتار انسان کی باتوں کو ارتداد کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا ہے ۔
-کفار و مشرکین کی اطاعت و پیروی انسان کو ارتداد تک لے جا سکتی ہے جس کے پیش نظر قرآن کریم نے انتباہ دیا ہے کہ کفار و مشرکین حتی اہل کتاب کی چالبازیوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہماری زندگی اسلامی طرز کی حامل ہو اگر تہذیب و تمدن کے میدان میں ہم اپنی شناخت کھو دیں گے تو ظاہر ہے آہستہ آہستہ ہمیں دوسروں کے رنگ میں رنگنا پڑے گا لہذا ہمیں ہر حال میں اپنی اسلامی شناخت و اپنے تشخص کے ساتھ جینے کی ضرورت ہے اور اسلامی طرز حیات اختیار کر کے بھی جیا جا سکتا ہے ممکن ہے بعض مقامات پر کچھ سختیاں ہوں لیکن کم از کم اس خطرناک ڈگر پر چلنے سے ہم خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں جو ارتداد پر جا کر منتہی ہوتی ہے جسکا ایک نمونہ ہمارے سامنے ہے اور اسی کی خاطر ہم مسلسل احتجاج کر رہے ہیں یہ احتجاج تب رنگ لائے گا جب ہم اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنے دین کومحبوب رکھیں اور اسی کے مطابق عمل کریں کہ جتنا ہم پابند دین ہونگے اتنا ہی دشمن ہم سے مایوس ہوگا ۔

حواشی :

۱-شہید اول، محمد بن مکی العاملی، الدروس الشرعیہ فی الفقہ الامامیہ، قم، نشر اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۷ق.، ، ج۲، ص۵۲؛ علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر احکام الشریعہ علی مذہب الامامیہ، تحقیق ابراہیم بہادری، قم، مؤسسہ امام صادق، چاپ اول، ۱۴۲۰ق.، ج۵، ص۳۹۷.
۲۔تحریرالاحکام، ج 5، ص 394
۳۔جواهرالکلام، ج 6، ص 49
۴-جوادی آملی، تسنیم، ۱۳۸۸ش، ج۱۲، ص۱۸۳و۱۸۴.
۵۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو منتظرى، حسینعلى، دراسات فى ولایه الفقیه و فقه الدوله الاسلامیه، ج ۳، ص ۳۸۷؛ ولایى، عیسى، ارتداد در اسلام، ص ۱۲۹ – ۱۴۸
۶- نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۶، ص۲۹۳ ، مستندات قرآنی مسئله ارتداد از منظر فریقین نویسنده : شریفی، صالحه؛مجله : مطالعات تطبیقی قرآن و حدیث » پاییز و زمستان 1399- شماره 15 علمی-ترویجی (‎23 صفحه - از 69 تا 91 )
۷۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَکُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلاَ تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْکُفَّارِ لاَ هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَ لاَ هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ وَ آتُوهُمْ مَا أَنْفَقُوا وَلاَجُنَاحَ عَلَيْکُمْ أَنْ تَنْکِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَلاَ تُمْسِکُوا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ ۔ ممتحنہ ۱۰
۸۔وَ لَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْکَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً نساء ۱۴۱
۹۔ ولکن من شرح بالکفر صدرا فعلیهم غضب من الله‏ ، نحل ۱۰۶
۱۰۔ ان الذین ارتدوا على ادبارهم من بعد ما تبین لهم الهدى الشیطان سول لهم‏» (محمد /25)
۱۱۔ شَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَ جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَ اللَّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ‌أُولٰئِکَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَ الْمَلاَئِکَةِ وَ النَّاسِ أَجْمَعِينَ‌خَالِدِينَ فِيهَا لاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لاَ هُمْ يُنْظَرُونَ‌ ، آل عمران ، ۸۷، ۸۸


۱۲۔ کَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْماً کَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ، آل عمران ۸۵
۱۳۔ ومن يَکْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَ هُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ‌ ماءدہ ۵
۱۴۔وَ مَنْ يَرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَ هُوَ کَافِراُولٰئِکَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ أُولٰئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ‌ ۔ بقرہ ۲۱۷
۱۵۔آیت اللہ فاضل لنگرانی سے گفتگواور عبد الکریم سروش کے شبہات کا جواب ۔ http://www.qudsonline.ir 761506/

۱۶۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ، تورات، 1985 م، بی‌جا، دارالکتب المقدس فی الشرق الاوسط. سفر خروج، باب 32 ، تورات، سفر خروج، باب 32: 128
۱۷۔ تلمود سهندرین 44 الف
۱۸۔ تفسیر میشنا سهندرین 10 و مزامیر 139 : گنجینه تلمود تألیف ربی یهود اهتاسی ترجمه امیر فریدون گرگانی ص 321 و دائره‌المعارف یهود واژه ارتداد: 375
۱۹۔الیاوه، 1372: واژه ارتداد ، ایلیاده، میرچا، 1372، دائرةالمعارف دین، ترجمه بهاء‌الدین خرمشاهی، تهران، مؤسسه مطالعات و تحقیقات فرهنگی.
۲۰۔ توفیقی، حسین، 1384، آشنایی با ادیان بزرگ جهان، ص ۲۵۱ تهران، سمت، چ 7.
۲۱۔منتسکیو، 1362، روح القوانین، ص ۳۳۸- ۳۴۰ ترجمه علی‌اکبر محمدی، تهران، امیرکبیر، چ 8 .
۲۲۔ ایضا ۳۵۳۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : بررسی و نقد انگاره ارتداد، در مسیحیت کاتولیک عظیم امیری محمدحسین طاهری
منبع: معرفت ادیان سال چهارم پاییز 1392 شماره 4
۲۳۔میرفخرایی، مهشید، 1367، ص ۵ روایت پهلوی، تهران، مرکز مطالعات و تحقیقات فرهنگی.

۲۴عبدالهی، فرشته، ص ۱۷۰ 1369، دین زرتشت، تهران، ققنوس.
۲۵۔ ابن‌مسکویه رازی، ابوعلی جلد ۱ ص ۱۰۱، 1366، تجارب الامم، مقدمه دکتر ابوالقاسم امامی، تهران، دارالسروش

۲۶۔ ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّکَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ إِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ‌ اصْبِرْ وَ مَا صَبْرُکَ إِلاَّ بِاللَّهِ وَ لاَ تَحْزَنْ علَيْهِمْ وَ لاَ تَکُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْکُرُون إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ الَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ‌ ، نحل ۱۲۵ ۔ ۱۲۶

تبصرہ ارسال

You are replying to: .