۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مولانا علی حیدر فرشتہ

حوزہ/ سوشل میڈیا پر جواب الجواب ہونے والے اختلافی مسلکی بحث و مباحثہ سے آج تک کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے سوائے نقصان کے۔نہ کوئی شیعہ سنی ہوا یا کوئی سنی شیعہ ہوا۔یا کوئی ہندو مسلمان ہوا یا کوئی مسلمان ہندو ہوا وغیرہ وغیرہ؟البتہ کشیدگی اور بد امنی ضرور پیدا ہوئی ہے۔ماحول ضرور خراب ہوا ہے۔لہذا تمام نو جوانوں سے مخلصانہ اپیل کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال ہرگز نہ کریں۔ آپ کا ایک غیر ضروری یا غلط کمنٹ بہت بڑی مصیبت کھڑا کر سکتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،صدر مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن(تلنگانہ) انڈیا، حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا علی حیدر فرشتہ نے اپنے ایک پیغام مومنین سے مخلصانہ اپیل کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ و سنی مسلمان بھائیوں میں آپسی اتحاد و بھائی چارہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

پیغام کا مکمل متن اس طرح ہے؛

باسمہ سبحانہ

واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا(قرآن مجید)

برداران ملت ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

یہ امر مسلّم ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے ۔ اسلام کے ماننے والوں کے دو بڑے مسلک ہیں شیعہ اور سنی۔جیسے ایک کامل الخلقت آدمی کے دو ہاتھ ،دو آنکھیں اور دو پیر۔مذہب ایک ہے ، دین ایک ہے، قرآن ایک ہے،قبلہ ایک ہے ،رسول ایک ہیں مسلک دو ہیں یہ کوئی اختلافی یا نزاعی رشتہ نہیں ہے ۔کیا ایک باپ کی دو یا دو سے زیادہ اولادیں  نزاعی ہوتی ہیں۔شیطانی طاقتوں نے اسے نزاعی مسئلہ بنا دیا ہے ورنہ پیغمبر اسلا م ؐ کی حدیث مبارکہ واضح ہے انا و علی ابوا ھٰذہ الامۃ (میں اور علی ؑ اس امت کے باپ ہیں) کوئی فرقہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتا ہے خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی یا کوئی اور سب اسی امت میں شامل ہیں جس  کے باپ نبیؐ اور علیؑ ہیں۔ لہٰذا شیعوں اور سنیوں سب کا فرض بنتا ہے کہ اسلام کی بقا و استحکام کی غرض سے  اپنی صفوں میں مکمل اتحاد و بھائی چارہ کا مظاھر ہ کریں  نہ کہ اختلاف و انتشار کا۔شیعہ اور سنی آپس میں دینی بھائی ہیں۔اور بحیثیت مسلمان کے سب پر یہ دینی فریضہ عائد ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے جان ،مال،عزت،آبرو  وغیرہ کی حفاظت کا پورا پورا خیال رکھیں۔حدیث مشہور ہے :’’ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو‘‘۔شیعہ و سنی مسلمان بھائیوں میں آپسی اتحاد و بھائی چارہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

ہم کو یہ جان کر سخت روحانی تکلیف ہوئی کہ شہر حیدرآباد کے ایک محلّہ یعقوب پورہ کے ایک جوان نے جذبات میں آکر سوشل میڈیا فیس بک پر نامناسب جملہ لکھ دیا۔جس سےلوگوں میں ناراضگی جتائی جارہی ہے۔ معاملہ جب کہ محکمہ پولیس انتظامیہ تک پہونچ گیا ہے تو ہم اس کے بارے میں کوئی رائے زنی کرنا ضروری نہیں سمجھتے ۔ یہ واقعہ غالباً سائبر کرائم سے جڑا ہوا ہے اور اب واقعہ کے سلسلہ میں پولیس اپنے طور سے تحقیق و تفتیش کرے گی ۔ہم امید کرتے ہیں کہ پولیس پوری دیانت داری کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھائے گی۔اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے گی۔ 

بہر حال مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن کی جانب سے ہم اس ناخوشگوار واقعہ کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور تمام نو جوانوں سے مخلصانہ اپیل کرتے ہیں کہ سوشل میڈیاکا غلط استعمال ہرگز نہ کریں۔ آپ کا ایک غیر ضروری یا غلط کمنٹ بہت بڑی مصیبت کھڑا کر سکتا ہے۔کسی بھی قوم و مذہب کے قومی و مذہبی اندرونی مسائل و معاملات میں اختلافی و نزاعی مواد  پوسٹ کرنے سے بالکل پرہیز کریں ۔سچ بتائیے سوشل میڈیا پر جواب الجواب ہونے والے اختلافی مسلکی بحث و مباحثہ سے آج تک کسی کو کوئی فائدہ ہوا ہے سوائے نقصان کے۔کوئی شیعہ سنی ہوا یا کوئی سنی شیعہ ہوا۔یا کوئی ہندو مسلمان ہوا یا کوئی مسلمان ہندو ہوا وغیرہ وغیرہ؟البتہ کشیدگی اور بد امنی ضرور پیدا ہوئی ہے۔ماحول ضرور خراب ہوا ہے۔

خدا را ! عالمی منظر نامہ پر نظر ڈالئے اور دیکھئے اور عبرت حاصل کیجئے  ہر طرف کیسی بے بسی ،مجبوری، لا چاری،افراتفری،ھنگامہ آرائی،قتل و غارتگری ،آفات نا گہانی۔اچانک اموات کی زیادتی،بد امنی،چیخ و پکا،آہ و کراہ کی ڈراؤنی بھیانک اور بلا خیز تصویریں ابھر کر سامنے آرہی ہیں۔ ہمارے ملک سمیت پوری دنیا میں کیسا پر آشوب دور چل رہا ہے ۔ایسے میں تمام اہل اسلام کے لئے سابقہ ادوار کی بہ نسبت دور حاضر میں اتحاد کی ضرورت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔اللہ کی رسی قرآن اور اہل بیت سے مضبوطی کے ساتھ وابستہ رہو ،ایک بنو نیک بنو ۔ورنہ علامہ اقبالؒ کی نصیحت یاد رہے:

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندی مسلمانوں        تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

خیر اندیش 

حجۃ الاسلا م والمسلمین مولانا علی حیدر فرشتہ

صدر مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن(تلنگانہ) انڈیا

تاریخ :  ۲۳؍ اگست ۲۰۲۱ء

تبصرہ ارسال

You are replying to: .