۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
غافر رضوی

حوزہ/ دشمن کے اسلحہ میں اتنا دم نہیں کہ قاسم سلیمانی کی یادوں کو دنیا سے مٹا سکے، اس کی ہزار کوششوں سے قاسم سلیمانی ضرور ہماری نگاہوں سے پنہاں ہوگئے لیکن قاسم سلیمانی آج بھی زندہ ہیں اور رہتی دنیا تک زندہ و پائندہ رہیں گے۔

تحریر: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چهولسی مدیر ساغر علم - دہلی
حوزہ نیوز ایجنسی یوں تو زمانہ کو نشیب و فراز کا سامنا ہوتا ہی رہتا ہے لیکن بعض ایسے حوادث و سانحات پیش آجاتے ہیں جو بهلائے نہیں بهولتے، اگر زمانہ بهلانا بهی چاہے تو خون ناحق کا جوش، ضمیر انسانیت کو جهنجهوڑ کر یاد دلاتا رہتا ہے کہ یہ واقعہ بهلانے والا نہیں ہے! ۔
ایسا ہی کچه سانحہ ۳ جنوری سن ۲۰۲۰ عیسوی میں سرزمین عراق پر پیش آیا، وہ سانحہ اتنا یادگار قرار پایا کہ رہتی دنیا تک تاریخ کی پیشانی پر تحریری صورت میں موجود رہے گا۔ ابوالفضل العباس علیہ السلام کے پیروکار " قاسم سلیمانی" نے شہید ہوکر اور اپنے جسم سے اپنے ہاتهوں کو جدا کرکے یہ ثابت کردیا کہ ہم شہید ہورہے ہیں لیکن مر نہیں رہے ہیں بلکہ حیات ابدی کے مستحق قرار پا رہے ہیں، اگر آج تم ایک قاسم سلیمانی کو مٹانا چاہتے ہو تو ظاہراً تم اپنے ارادہ میں کامیاب ہوسکتے ہو لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک قاسم سلیمانی کے اٹه جانے کے بعد نہ جانے کتنے قاسم سلیمانی کهڑے ہوجائیں گے! ۔
آخر وہ سانحہ کیسے بهلایا جاسکتا ہے جس میں دو بہادر لوگوں کو بزدلانہ طریقہ سے شہید کیا گیا! ۔ بہادری تو یہ ہوتی ہے کہ دونوں حریف مد مقابل کهڑے ہوں اور دونوں طرف سے برابر کے وار ہوتے رہیں، بم کے ذریعہ کسی کو شہید کردینا نہ تو بہادری ہے نہ ہی اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہے کیونکہ اسلام نے نہ تو نہتے انسان پر وار کرنے کی دعوت دی ہے نہ ہی دهوکہ سے مارنے کی طرف ترغیب دلائی ہے اور نہ ہی بزدلانہ طریقوں کو اپنانے کی تائید کی ہے بلکہ یہ سب طریقے اسلامی نقطۂ نگاہ سے غلط اور غیر اخلاقی ہیں۔
اسلام نے کسی سے دشمنی کرنے کی دعوت ہرگز نہیں دی لیکن اگر کوئی زبردستی دشمن پیدا ہوگیا ہے تو اس دشمن سے لڑنے کے بهی اصول معین کئے ہیں اور ان اصول و قوانین میں سے ایک اصل یہ ہے کہ اگر جنگ ہورہی ہے تو مقابلہ برابر کا ہونا چاہئے یعنی اگر سامنے والے کے پاس بندوق ہے تو آپ بهی بندوق لیکر چلیں، اگر سامنے والے کے پاس تلوار ہے تو آپ کے ہاتهوں میں بهی تلوار ہونی چاہئے، اگر سامنے والا بهالا لایا ہے تو آپ بهی بهالا سنبهال لیجئے، اگر سامنے والا بم سے وار کر رہا ہے تو آپ بهی بم ہی ماریئے لیکن اگر سامنے والا نہتا ہے تو آپ کو کسی بهی طرح یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کسی اسلحہ کے ذریعہ وار کریں چہ جائیکہ بزدلانہ طریقہ سے پشت پر وار کیا جائے اور گاڑی پر جاسوسی طیارہ کے ذریعہ حملہ کرکے بہادروں کو شہید کیا جائے! اور اس کے علاوہ بهی شرائط ہیں جو دین اسلام نے معین کئے ہیں کہ سامنے والے پر کیسے وار کرنا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام نے جنگ کی دعوت ہی نہیں دی ہے بلکہ اسلام نے دفاع کا حق دیا ہے، اگر آپ پر کوئی حملہ کر رہا ہے تو آپ پر دفاع کرنا واجب ہے لیکن آپ کی جانب سے ابتدا نہیں ہونی چاہئے! وہ کیسے نام نہاد اسلامی جامہ پہنے ہوئے تهے کہ جنگ میں ایک زنانہ طریقہ آزمایا؟؟ ۔
قاسم سلیمانی تو مسکراتے ہوئے عروس شہادت سے بغلگیر ہوگئے لیکن ان کی شہادت کے بعد جو زمانہ نے انگڑائی لی ہے وہ سب کی آنکهوں کے سامنے ہے، یقیناً قارئین کرام کو یہ یاد ہوگا کہ کرونا جیسی مہلک وبا کا آغاز قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ہی ہوا ہے گویا اگر تم ہمیں مٹانا چاہو گے تو ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کہ زمانہ کے ڈاکٹر اس کا علاج تلاش کرتے کرتے پریشان ہوجائیں گے! ۔
داعش کی فوج قاسم سلیمانی اور ان کے قریبی دوست "ابو مہدی المہندس"کو اپنی راہ کا سب سے بڑا کانٹا سمجهتی تهی یہی وجہ تهی کہ ہمیشہ اس تلاش میں رہتی تهی کہ کب قاسم سلیمانی تنہا اور نہتے ملیں اور ان کا کام تمام کیا جائے! یعنی دشمن میں اتنی طاقت و ہمت ہی نہیں تهی کہ قاسم سلیمانی جیسے شیر کا مقابلہ کرسکے یہی تو وجہ تهی کہ بزدلانہ طریقہ سے حملہ کیا گیا ورنہ کس میں اتنی مجال تهی کہ قاسم سلیمانی کی طرف آنکه اٹهاکر دیکه سکے! یہ تو وہ شیر تها کہ دشمنوں کے نرغہ میں نہتا تها اور اس کے باوجود صدام کی قبر کے نزدیک والے ہوٹل میں چائے پی کر آیا تها، کیا ایسے بہادر انسان کی شان والا صفات میں کوئی یہ گستاخی کرسکتا تها کہ اس کے سامنے آجائے؟ ایسا کام تو وہی نادان کرسکتا تها جسے اپنی جان پیاری نہ ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن ڈرپوک ہونے کے ساته ساته نہایت چالاک بهی تها اور اسے قاسم سلیمانی کی بہادری کا علم بهی تها! گویا یہ ایک سوچی سمجهی سازش تهی، یعنی قاسم سلیمانی پر اچانک حملہ نہیں ہوا بلکہ دشمنانِ قاسم مہینوں سے پلاننگ کر رہے تهے کہ اس شیر کا کون سے اسلحہ سے شکار کیا جائے! ۔
آخر کار داعشی فوج نے جاسوسی طیارہ کے ذریعہ ان دو کمانڈروں کو شہید کردیا لیکن جو پائلٹ ان کی شہادت کا سبب قرار پایا، زمانہ نے اس کی موت کا بهی نظارہ کیا کہ وہ کیسی بری موت مرا!، جس جہاز میں وہ سفر کررہا تها اس کے ایسے پراخچہ اڑے کہ اس پائلٹ کے اعضائے بدن بهی نہ مل سکے، اس کے ذریعہ خداوندعالم نے پوری دنیا کو یہ بتادیا کہ ظلم کبهی بهی پهولتا پهلتا نہیں ہے، آخرت میں جو ظالم کو عذاب دیا جائے گا وہ تو الگ ہے، خود اس دنیا میں بهی اپنے کئے کی سزا پاتا ہے۔
یہ بهی یاد رکهنے کی بات ہے کہ اگر اس وقت قاسم سلیمانی ہماری آنکهوں کے سامنے ہوتے تو افغانستان میں طالبان کی حکومت کا قیام ناممکن تها! نام نہاد مسلمانوں نے قاسم سلیمانی کو شہید کرکے اپنے ہی پیروں میں کلہاڑی ماری ہے۔
قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد اس دنیا میں ایسی ایسی تبدیلیاں دیکهنے میں آئی ہیں جو بیان کی محتاج نہیں ہے کیونکہ تمام مناظر پوری دنیا کے سامنے موجود ہیں! ۔ قاسم سلیمانی کے بعد جو اموات کا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ کسی ایک خطہ سے مخصوص نہیں رہا بلکہ اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور یہ وباؤں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا ہے کہ تمام حکومتوں کو پریشان کئے ہوئے ہے اور دنیا سے جانے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے، ایک وبا ختم نہیں ہونے پاتی کہ دوسری وبا کی دستک سنائی دینے لگتی ہے۔ کبهی کرونا کی پہلی لہر تو کبهی دوسری لہر، کبهی تیسری لہر گویا ایک ہی وبا ہے جو نام بدل بدل کر اور ابلیس کی مانند لباس بدل بدل کر دنیا کے سامنے آرہی ہے! اب اس کی حقیقت کیا ہے اس کا اصل علم تو خدا کے پاس ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد زمانہ تباہی کے گهاٹ پہنچ چکا ہے۔
وزارت صحت کی انتہک کوششوں کے باوجود اموات کا سلسلہ جاری و ساری رہا، تمام اسپتالوں میں کیا کیا ڈرامے ہوئے وہ سب بهی دنیا کی نگاہوں کے سامنے ہیں، اب اس میں کتنی حقیقت تهی اور کتنی دهوکہ دهڑی! یہ خدا ہی بہتر جانے، بہرحال! قاسم سلیمانی کی مفارقت نے دنیا کو تہہ و بالا کردیا۔
اگر قاسم سلیمانی ہمارے درمیان موجود ہوتے تو شاید زمانہ میں یہ تغیرات رونما نہ ہوتے جو ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں، قاسم سلیمانی کا خون ناحق بہ بانگ دہل دنیاکو بتا رہا ہے کہ "یہ خون ہے، پانی نہیں، ٹپکا تو جمے گا"۔ خون ناحق چهپائے نہیں چهپتا اور خون بہانے والے کو اس کی مہنگی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ایک انمول اور انوکها واقعہ یہ بهی پیش آیا کہ اپنے گمان میں خود کو سوپر پاور سمجهنے والا امریکہ جس کو اپنے جاسوسی طیارہ پر ناز تها اور اس کا یہ دعویٰ تها ہمارا یہ طیارہ کسی بهی راڈار پر دکهائی نہیں دے سکتا! اس طیارہ کو ایران نے اس طرح اپنے قابو میں کیا کہ زمانہ محو حیرت ہوگیا اور امریکہ کو منه کی کهانی پڑی اور اس سے پہلے بهی ایران نے امریکہ کا ایک جاسوسی طیارہ اپنے قابو میں کیا تها جس نے دنیا کے سامنے امریکہ کی ناک نیچی کردی تهی اور امریکہ ایسا تلملا گیا تها کہ ایران پر ہزاروں پابندیوں کے باوجود مزید پابندیاں بهی عائد کردی تهیں! لیکن شاید وہ امام خمینی ؒ کے جملہ کو بهلا بیٹها ہے کہ "جب ہم نے اللہ اکبر کہہ دیا تو اب ہمارے سامنے اللہ کے سوا کوئی سوپر پاور نہیں ہے، ہم اسی کے آگے سر جهکاتے ہیں اور ہمیشہ اسی کے آگے سر تسلیم خم کرتے رہیں گے"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کتنا ہی سوپر پاور بنتا رہے اور اپنے آپ کے لئے سوپر پاور ہوسکتا ہے، پوری دنیا کے لئے سوپر پاور ہوسکتا ہے لیکن ان لوگوں کے سامنے سوپر پاور نہیں ہوسکتا جو واقعاً خدا کی وحدانیت کے قائل ہیں، جنہوں نے خدا کی ذات کو سوپر پاور مانا ہے وہ کسی دوسری طاقت کو ہرگز سوپر پاور نہیں مان سکتے! کیونکہ حقیقت توحید یہی ہے کہ وہ صرف ایک ہے۔
اگرچہ آج ہمارے درمیان قاسم سلیمانی نہیں ہیں لیکن ان کے افکار، ان کا مشن، ان کی سوچ سب کچه زندہ ہے اور رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گی کیونکہ اگر ایک قاسم سلیمانی کو وداع کردیا گیا تو نہ جانے کتنے قاسم سلیمانی پیدا ہوچکے ہیں، دشمن کو اس بات کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑے گا کہ قاسم سلیمانی کو شہید کرنا اس کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تهی، اب وہ کتنے قاسم سلیمانی کو شہید کرے گا، کتنے ابو مہدی المہندس پر بم برسائے گا!!۔
دشمن کے اسلحہ میں اتنا دم نہیں کہ قاسم سلیمانی کی یادوں کو دنیا سے مٹا سکے، اس کی ہزار کوششوں سے قاسم سلیمانی ضرور ہماری نگاہوں سے پنہاں ہوگئے لیکن قاسم سلیمانی آج بهی زندہ ہیں اور رہتی دنیا تک زندہ و پائندہ رہیں گے۔
آخر کلام میں خداوند عالم کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں کہ پروردگار عالم! ہمیں زیادہ سے زیادہ قاسم سلیمانی اور ان جیسے ہمدردان اسلام کے افکار کو زندہ رکهنے کی توفیق مرحمت فرما۔ "آمین" والسلام علیٰ من اتبع الهدیٰ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .