۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
صفوان بن یحیی

حوزہ/ امام محمد تقی علیہ السلام کے اصحاب و شاگردان کی تعداد کے سلسلے میں علماء کے نظریات مختلف ہیں۔ ہم سلسلہ وار آپ کے اصحاب کا مختصر تعارف کریں گے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی| امام محمد تقی علیہ السلام کے اصحاب و شاگردان کی تعداد کے سلسلے میں علماء کے نظریات مختلف ہیں۔ شیخ الطائفہ جناب شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب رجال میں 117 نام ذکر کئے ہیں، جناب باقر شریف قرشی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب حیات الامام محمد الجواد میں 132 نام، جناب عزیز اللہ عطاردی رحمۃ اللہ علیہ نے 121 نام ذکر کئے ہیں، جناب عبدالحسین شبستری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب سبل الرشاد الی اصحاب الامام الجواد میں 193 اور جناب سید محمد کاظم قزوینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الامام الجواد من المہد الی اللحد میں 276 نام ذکر کئے ہیں۔ البتہ ان اصحاب میں سے بعض امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ، امام علی رضا علیہ السلام کے بھی صحابی تھے اور بعض امام علی نقی علیہ السلام کے بھی صحابی تھے۔

انہیں اصحاب و شاگردان میں ایک جناب صفوان بن یحییٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیہ تھے۔

جناب صفوان بن یحییٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کا شمار اصحاب اجماع میں ہوتا ہے۔ واضح رہے ائمہ معصومین علیہم السلام کے سیکڑوں شاگردوں میں سے 18 افراد کو اصحاب اجماع کہا جاتا ہے ۔ زُراره، بُرَید، ابوبصیر، فضیل بن یسار، محمد بن مسلم، جمیل بن دُرّاج، عبداللّه بن مسکان، عبداللّه بن بکیر، حمّاد بن عثمان، حمّاد بن عیسی، ابان بن عثمان، یونس بن عبدالرّحمان، محمد بن ابی عمیر، عبداللّه بن مغیره، حسن بن محبوب، احمد بن ابی نصر، معروف بن خرّبوذ و صَفْوان بن یحیی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم ۔ چونکہ فقہ کی اکثر روایتیں انہیں حضرات سے نقل ہوئی ہیں کہ اگر یہ نہ ہوتے تو شیعہ فقہ کا نام و نشان نہ ہوتا۔

جناب صفوان بن یحییٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے صحابی تھے۔ جب ہارون عباسی ملعون کے قید خانہ میں باب الحوائج امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت ہو گئی تو آپؑ کے وکلاء میں سے بعض دین فروش، ضمیر فروش ، خواہشات نفسانی کے اسیر لوگوں نے مال دنیا کی لالچ میں امام علی رضا علیہ السلام کی امامت کا انکار کرتے ہوئے فرقہ واقفیہ کی بنیاد رکھی ۔ جس طرح امیرالمومنین علیہ السلام کی خلافت و حکومت کا بعض گورنروں نے صرف اس لئے انکار کیا ، کیوں کہ اگر وہ اقرار کرتے تو حکومت اور اس کا حساب و کتاب امیرالمومنین علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرنا پڑتا ۔ لہذا حکومت و اقتدار کی لالچ میں خلافت و حکومت علوی کا انکار کیا ۔ اسی طرح فرقہ واقفیہ کے سربراہوں نے امام علی رضا علیہ السلام کی امامت کا انکار کیا تا کہ ان کے پاس موجود شرعی رقوم امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں پیش نہ کرنا پڑے۔

واقفیوں نے بہت کوشش کی کہ جناب صفوان بن یحییٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کو بھی راہ حق سے منحرف کر دیں لیکن کوئی اثر نہ ہوا اور انھوں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بعد امام علی رضا علیہ السلام کی امامت کا اقرار کیا ۔ (رجال نجاشی، صفحہ 197)

جناب علی بن معاذ کا بیان ہے کہ میں نے جناب صفوان بن یحییٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا کہ آپ کو امام علی رضا علیہ السلام کی امامت پر کیسے یقین ہوا؟ انھوں نے فرمایا: میں نے نماز پڑھی ، ذکر خدا کیا اور اس سے طلب خیر کیا تو مجھے امام علی رضا علیہ السلام کی امامت کا یقین ہوگیا۔ (الغیبہ، شیخ طوسی، ص 61)

جناب صفوان بن یحییٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ جواب ایسے افکار ضالہ کو باطل قرار دیتے ہیں جو بنام ولایت و امامت نماز جیسی عظیم عبادت کی توہین و تخفیف کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ جب امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت ہوئی اس وقت امام محمد تقی علیہ السلام کی عمر مبارک چھ سال چند ماہ تھی لہذا بعض چاہنے والے تصویر حیرت بن گئے کہ کس کو امام مانے ایک چھ سال کے بچے کو یا ان کے بالغ ہونے کا انتظار کریں۔ اگرچہ امام علی رضا علیہ السلام نے بعض مخصوص افراد کو امام محمد تقی علیہ السلام کی زیارت بھی کرائی تھی اور صراحت فرمائی تھی کہ میرے بعد یہ امام ہوں گے۔ (دلائل الامامہ، ص 200)

روایت میں ہے جب امام محمد تقی علیہ السلام کی عمر مبارک تین سال تھی تو جناب صفوان بن یحییٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ جب آپؑ کے فرزند کی ولادت نہیں ہوئی تھی تو میں نے آپؑ سے پوچھا تھا کہ آپؑ کے بعد امام کون ہوں گے تو آپؑ نے فرمایا تھا کہ اللہ مجھے ایک بیٹا عطا کرے گا جو میرے بعد تمہارا امام ہوگا۔ اب آپؑ نے اپنے فرزند کی زیارت بھی کرا دی ہے، اگر خدا نخواستہ آپؑ کو کچھ ہو گیا تو ہم کس کی جانب رجوع کریں گے؟ امام علی رضا علیہ السلام نے امام محمد تقی علیہ السلام کی جانب اشارہ فرمایا، انھوں نے عرض کیا : لیکن ان کی عمر تو ابھی صرف تین سال ہے؟ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: اس سے امامت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ، کیا عیسیٰ ؑبن مریم ؑاس وقت حجت خدا نہیں تھے جب انکی عمر تین دن سے زیادہ نہیں تھی۔ (کافی، ج 11، ص 321)

جناب صفوان بن یحییٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیہ تاریخ تشیع کی عظیم شخصیت تھے، آپؒ بے نظیر عالم، فقیہ، محدث، متکلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے خاص صحابی تھے، علمی جلالت و عظمت کے ساتھ ساتھ آپ کا زہد و تقویٰ بھی زباں زد خاص و عام تھا۔ رزق حلال کے حصول کے لئے کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔

آپؒ نے امام جعفر صادق علیہ السلام ، امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ، امام علی رضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کے 140 سے زیادہ اصحاب سے روایتیں نقل کی ہیں۔ (مشایخ الثقات و جامع الرواة، جلد 1، صحہا 413 ـ 417؛ معجم رجال الحدیث) ذیل میں آپؒ کے چند خصوصیات پیش ہیں۔

1۔ معراج تقویٰ:

جناب صفوانؒ زہد و تقویٰ میں منفرد تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ مکہ مکرمہ میں آپؒ کے ایک پڑوسی نے دو دینار دئیے کہ کوفہ لیتے جائیں تو آپ نے یہ کہتے ہوئے اس کی درخواست قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ جب میں نے اونٹ کرایہ پر لیا تھا تو یہ دو دینار میرے مال میں شامل نہیں تھے لہذا پہلے میں اونٹ کے مالک سے اجازت لے لوں۔ (تحفۃ الاحباب، صفحہ 221؛ نقدالرجال، صفحہ 173)

2۔ امام علی رضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کے خاص وکیل اور نائب:

جناب صفوان بن یحییٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیہ امام علی رضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کے خاص وکیل اور نائب تھے۔ (رجال نجاشی، ص 197) شرعی رقوم کی جمع آوری کے علاوہ اہل بیت علیہم السلام کی روایات کی نشر و اشاعت، شیعوں کی ہدایت اور منحرف گروہوں سے مقابلہ بھی آپؑ کی اہم ذمہ داری تھی۔

3۔ امام علی رضا علیہ السلام کی خاص عنایت:

معمر بن خلاد سے روایت ہے: اسماعیل بن خطابؒ نے اپنے مال زکات میں سے کچھ حصہ جناب صفوانؒ کو دیا تو میں نے یہ بات امام علی رضا علیہ السلام کو بتائی تو آپؑ نے فرمایا: خدا وند عالم اسماعیل بن خطاب پر رحمت نازل کرے میں نے انکو صفوان کے ساتھ نیکی کا حکم دیا ، خدا صفوان پر رحمت نازل کرے۔ وہ دونوں میرے آباء طاہرین کے لشکر میں شامل تھے اور جو بھی میرے لشکر میں شامل ہوا وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ (اختیار معرفة الرجال، جلد 2، صفحہ 792)

4۔ حقیقی عادل:

محمد بن عیسیٰ یقطینی کا بیان ہے: امام علی رضا علیہ السلام نے کپڑوں کا ایک گٹھا، کچھ غلام، کچھ دینار، میرے لئے رہنما، میرے بھائی موسیٰ کے لئے رہنما اور یونس بن عبدالرحمٰن کے لئے رہنما بھیجے اور ہم‌ سب کو حج کرنے کا حکم دیا۔ امام علیہ السلام نے حکم دیا کہ پیسوں کو چند مد میں خرچ کیا جائے جس میں سے کچھ آپ کے گھر والوں کو دیا جائے، کچھ رقم محتاج اور ضرورت مندوں کو دی جائے اور تین سو دینار آپ کی ایک زوجہ کو دیا جائے اور یہ بھی حکم دیا کہ آپ کی جانب سے اس زوجہ کو طلاق دے دیا جائے۔ نیز امام علی رضا علیہ السلام نے حکم دیا تھا کہ اس طلاق میں صفوان بن یحیی اور ایک دوسرے شخص کو گواہ بنایا جائے۔

علامہ مامقانی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا کہ امام علی رضا علیہ السلام نے جناب صفوان بن یحیی رضوان اللہ تعالی علیہ کے عادل ہونے کی صراحت فرمائی ہے کیونکہ طلاق کے دو گواہ عادل ہونے چاہیے۔ (تنقیح المقال، ج 2، ص 100 و 101)

5. متقی و عابد:

جناب صفوان بن یحیی رضوان اللہ تعالی علیہ ہر دن 150 رکعت نماز پڑھتے، سال میں تین مہینہ روزہ رکھتے اور تین بار زکوۃ نکالتے تھے۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ مشکلات و پریشانی میں آپ نماز، دعا اور مناجات میں اس کا حل تلاش کرتے تھے۔ (رجال نجاشی صفحہ 197)

6. اہل بیت علیہم السلام کے مخصوص صحابی:

جناب صفوان بن یحیی رضوان اللہ تعالی علیہ امام علی رضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کے خاص صحابی تھے اور ان دونوں اماموں کی خاص عنایت اور نظر کرم آپ پر تھی۔ بقول نجاشی جناب صفوان امام رضا علیہ السلام کے خاص صحابی تھے۔ (رجال نجاشی صفحہ 197)

7. آئمہ ھدی علیہم السلام کے مطیع محض:

علی بن حسین بن داؤد قمی کا بیان ہے۔ میں نے امام محمد تقی علیہ السلام سے سنا کہ صفوان بن یحیی اور محمد بن سلمان کو آپ نے نیکی سے یاد کرتے ہوئے فرمایا: "رضی الله عنهما برضای عنهما فما خالفانی قطّ" اللہ ان دونوں سے راضی رہے میرے راضی ہونے کے سبب۔ ان دونوں نے کبھی بھی میری مخالفت اور نافرمانی نہیں کی۔ اسی طرح دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا ان دونوں نے کبھی بھی میرے والد امام علی رضا علیہ السلام کی نافرمانی نہیں کی۔ (اختیارمعرفة الرجال، ج 2، ص 792 و 793)

8. اہل بیت علیہم السلام سے محبت:

جناب صفوان بن یحیی رضوان اللہ تعالی علیہ کو اہل بیت اطہار علیہم الصلوۃ والسلام سے اس قدر محبت و عشق تھا کہ امام علی رضا علیہ الصلوۃ والسلام کی جان کی حفاظت کو خود پر واجب سمجھتے تھے۔ چنانچہ خود آپ کا بیان ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد جب امام علی رضا علیہ السلام نے بطور واضح اپنی امامت کا اعلان کیا تو مجھے خوف ہوا کہ کہیں آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچے لہذا میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ نے انتہائی اہم موضوع کو ظاہر کیا ہے اور ہم آپ کی جان کے سلسلے میں فکر مند ہے کیونکہ ممکن ہے ہارون رشید آپ کو نقصان پہنچائے۔ (بحارالانوار، ج 49، ص 113)

اسی طرح جب امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت ہوئی تو آپ اور جناب یونس بن عبدالرحمن رضوان اللہ تعالی علیہ نے چند اصحاب اور چاہنے والوں کے ساتھ گریہ و زاری اور عزاداری کی۔ (مدینة المعاجز، ج 7، ص 290 و 291)

9. ائمہ معصومین علیہم السلام سے وفاداری:

عبداللہ بن صلت سے روایت ہے۔ امام محمد تقی علیہ السلام کی زندگی کے آخری ایام میں میں ان کی خدمت میں پہنچا تو انہوں نے فرمایا: "جزی اللّه صفوان بن یحیی و محمد بن سنان و زکریا بن آدم عَنّی خیراً فقد وفوا لی" خداوند عالم صفوان بن یحیی، محمد بن سنان اور زکریا ابن آدم کو مجھ سے وفاداری کے سبب جزائے خیر دے۔ (اختیار معرفة الرجال، جلد 2، صفحہ 792)

10. علمی جلالت:

جناب صفوان بن یحیی رضوان اللہ تعالی علیہ فقہ و حدیث میں اس مقام و مرتبہ پر تھے کہ آپ کو صف اول کے فقہا میں، امام موسی کاظم علیہ السلام اور امام علی رضا علیہ السلام کے خاص شاگردوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ (کلیات فی علم الرجال، صفحہ 175) آپ کے علمی آثار کی تعداد 30 سے زیادہ ہے جس کے ذریعے آپ نے عالم اسلام کی نمایاں خدمت کی۔

وفات حسرت آیات:

سن 210 ہجری مدینہ منورہ میں آپ کی وفات ہوئی۔ امام محمد تقی علیہ السلام نے آپ کے حنوط کے لئے کافور اور کفن بھیجا اور اپنے چچا جناب اسماعیل بن موسی کاظم علیہ السلام کو نماز جنازہ کا حکم دیا۔ (اختیار معرفة الرجال، ج 2، ص 792)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .