منگل 30 دسمبر 2025 - 11:30
امام جوادؑ؛ علم، تقویٰ اور معجزۂ امامت

حوزہ/ امام محمد تقی علیہ السلام اہلِ بیتِ اطہارؑ کی اس درخشاں کڑی کا نام ہیں جنہوں نے کم سنی میں منصبِ امامت پر فائز ہو کر علم، تقویٰ اور کرامت کے ذریعے حق کی حقانیت کو آشکار کیا اور امتِ مسلمہ کے لیے ہدایت و بصیرت کا روشن چراغ بنے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | نسیمِ سحر اس بلند مرتبت عطیۂ الٰہی کی صدائے قرآن کو رشکِ آسماں بنائے ہوئے تھی، جس کی عظمت پر کائنات قصیدہ خواں ہے۔ وہ مبارک ہستی جس کا کاشانہ مسکینوں کی امیدوں کا پاکیزہ مرکز، یتیموں کی حاجت روائی کی پناہ گاہ اور اسیروں کے لیے جائے امان ہے۔ یہ وہ بیتُ الشرف ہے جہاں پیکرِ عصمت بشریت کے قالب میں انسانیت کو نجات عطا کرنے کے لیے جلوہ گر ہوا۔

اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام وہ مقدس ہستیاں ہیں جو خالق و مخلوق کے درمیان ریسمانِ محکم ہیں۔ یہ ذواتِ قدسیہ ذاتِ اقدسِ الٰہی کے انوارِ تاباں ہیں، ستاروں کی انجمن کا کعبۂ عشق ہیں، جہاں تشنگانِ علم و حقیقت طواف کرتے نظر آتے ہیں۔ یہی وہ مرکز ہے جہاں تہذیب و تمدن کی توثیق ہوتی ہے اور دنیائے غرور زانوئے تلمذ طے کرتی ہے۔

ان حضرات کا علم اس ذاتِ لازوال سے وابستہ ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔ یہ ہستیاں ہر مسدود راہ کے لیے دروازۂ نجات ہیں۔ ظلم و تشدد، قید و بند اور صعوبتوں کو گلے لگا کر امتِ مسلمہ کے لیے کلمۂ حق کا پرچم بلند رکھتی ہیں۔ زندانوں کی تاریک کوٹھریوں سے اسلام کی صدا کو دنیا بھر تک پہنچایا، مگر ظلم و ستم کی آندھیاں ان کے پائے ثبات میں کبھی لغزش پیدا نہ کر سکیں۔ یہ اپنے وجود کو اسلام پر قربان کرنے والی وہ ہستیاں ہیں جن کی عظمت آسمانِ رفعت کو چھوتی ہے۔

ان کی ملکوتی شخصیت ہمارے فہم و ادراک سے ماورا ہے۔ ان کی خوشنودی، خداوندِ متعال کی خوشنودی کے مترادف ہے، اور ان کے فضائل و مناقب کا اقیانوس ہر تشنۂ معرفت کے لیے جائے پناہ ہے۔

امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادتِ باسعادت سے امام علی رضا علیہ السلام کو خاص تسکینِ قلب حاصل ہوئی، کیونکہ اس وقت امام رضا علیہ السلام کی عمر مبارک چالیس برس سے تجاوز کر چکی تھی اور آپ کی کوئی اولاد نہ تھی، جو اس دور کے شیعوں کے لیے باعثِ تشویش تھی۔ وہ مسلسل بارگاہِ امام میں حاضر ہو کر دعا کی درخواست کرتے تھے۔ امام رضا علیہ السلام انہیں تسلی دیتے ہوئے فرماتے:

“پروردگارِ عالم مجھے ایک فرزند عطا فرمائے گا جو میرا وارث ہوگا اور میرے بعد امام ہوگا۔”

(بحار الانوار، ج 5، ص 15)

امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت 10 رجب 195ھ کو ہوئی۔ آپ کا اسمِ مبارک “محمد”، کنیت “ابوجعفر” اور مشہور القاب “تقی” اور “جواد” ہیں۔ آپ کی والدہ کا نام “سبیکہ” تھا، جنہیں امام رضا علیہ السلام نے “خیزران” کا لقب عطا فرمایا۔ آپ رسولِ اکرم ﷺ کی زوجہ محترمہ جناب ماریہ قبطیہؓ کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ ایک روایت میں آپ کو “خیرُالاماء” یعنی بہترین کنیزِ خدا کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔

(الکافی، ج 1، ص 323)

جناب حکیمہ، ہمشیرۂ امام رضا علیہ السلام، بیان کرتی ہیں کہ ولادت کے تیسرے دن نومولود نے آنکھیں کھولیں، آسمان کی طرف نگاہ کی، دائیں بائیں دیکھا اور کلمۂ شہادتین زبانِ اطہر پر جاری فرمایا۔ جب یہ واقعہ امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں بیان کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

“اس کے بعد جو کچھ تم دیکھو گے، وہ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہوگا۔”

(مناقب ابن شہر آشوب، ج 4، ص 394)

امام رضا علیہ السلام نے امام محمد تقی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

“یہ وہ مولود ہے جس سے زیادہ بابرکت کوئی مولود شیعوں کے لیے دنیا میں نہیں آیا۔”

(ارشاد مفید، ص 299)

امام محمد تقی علیہ السلام آٹھ یا نو برس کی عمر میں منصبِ امامت پر فائز ہوئے۔ معلی بن احمد کہتے ہیں کہ میں امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام محمد تقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے خدوخال و قامت کو بغور دیکھنے لگا۔ اسی دوران امام نے فرمایا:

“اے معلی! اللہ نے امامت کے لیے بھی وہی دلیل پیش کی ہے جو نبوت کے لیے پیش کی تھی۔”

پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

﴿يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا﴾

(سورۂ مریم: 12)

امام محمد تقی علیہ السلام سراپا برکت اور آپ کی ذاتِ مقدسہ سے لوگ شفا پاتے تھے۔ محمد بن میمون بیان کرتے ہیں کہ میں نابینا ہو چکا تھا۔ جب امام کے دستِ مبارک نے میری آنکھوں کو مس کیا تو فوراً بینائی لوٹ آئی، اور میں صحت و سلامتی کے ساتھ واپس لوٹا۔ (بحار الانوار، ج 50، ص 46)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha