تحریر : محمد جواد حبیب
مقدمہ
بہترین طرز زندگی یا (Lifestyle) انسان کے لئے کیا ہے ؟ آج کی دنیا میں بہت سارے طرز زندگیLifestyleپیش کئے جاتے ہیں کلی طور پر دیکھا جائے دو طرح کے طرززندگی ہے ایک بے دینوں اور ملحدوں والی طرززندگی ہے اور تو ایک دینداروں کی طرززندگی ہے ۔ اسی میں ایک اسلامی طرززندگی ہے جسکا ایک شاح "فاطمیؑ طرز زندگی" ہے جس کے بارے میں کچھ نکات اس مقالہ میں ذکرکیا گیا ہے ۔
ایام فاطمیہ ، (Fatimid Lifestyle)"فاطمی طرز زندگی" کو بیان کرنے کے لئے اور اس کے مطابق عمل کرنے کیلئے بہترین موقع ہے حضرت فاطمہ ؑ نے اس دور میں اپنی پوری عمر خاندان و سماج کی فلاح اور بہبودی ، تعلیم و تربیت اور پرسکون ماحول کے فراہمی کےلئے بہترین کردار ادا کی ہے ۔عصرحاضر کی پریشانیوں اور الجھنوں سے نجات پانے کے لئے مسلمان خواتین اور لڑکیوں کو "فاطمی طرز زندگی"( Fatimid Lifestyle) کی سخت ضرورت ہے ۔
اس طرز زندگی کے کچھ اصول ہیں جیسے صداقت ، عصمت، مدیریت ،عبادات و مناجات ،تربیت اولاد،احترام شریک الحیات ،صبر وتحمل وغیرہ قابل ذکر ہے جس کو نمونہ قرار دیتے ہوئے آج کا انسان خود کو" دینی طرز زندگی" (Religious Lifestyle)تک لاسکتا ہے ۔ اس لئے کہ انسان کمالات کاطلبکار ہے وہ دنیا اور اخرت دونوں میں کمال چاہتا ہے یہ بات یقین سے کہاجاسکتاہےکہ دنیوی اور اخروی کمالات کو حاصل کرنے کے لئے فاطمی طرز زندگی بہترین وسیلہ ہے ۔
آج دشمنان اسلام اپنے باطل اغراض و مقاصد کو حاصل کرنے کےلئے حیا، عفت ، طہارت اور پاکدامنی کو معاشرے سے ختم کرنے کی ناپاک کوششیں کررہے ہیں جب بھی کسی معاشرے کے خواتین اور لڑکیاں گمراہ ہوجاتی ہیں تو اس معاشرے میں زندگی گزارنے کے اصول ختم ہوجاتے ہیں اور خاندانی محبت و الفت ، دشمنی اور نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔اور وہاں لوگ ایک دوسرے سے جنگ کی حالت میں رہتے ہیں جس کا اثر انسان کے کئی نسلوں پر ہوتا ہے ۔آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ یورپ کی طرززندگی نے یورپ کے ساتھ ساتھ کئی ممالک کو متاثر کیا ہواہے جس کی وجہ سے آ ج گھریلونظام خراب ہو چکا ہے اوراخلاقی اقدار ختم ہوچکے ہیں آج ایثار، قربانی ،فدکاری،رشتہ داری ، صلہ رحم وغیرہ سب فضول سمجھا جاتا ہے جسکی وجہ سے ہر ماں و باپ اپنے بچوں سے پریشان ہے یاہر انسان دوسرے انسان سے پریشان ہے ہر طرف درندگی ، غداری ،دشمنی اور نفرت کا ماحول ہے ۔دو جاہلیت کے سارے کارنامے آج بھی انجام دیا جارہا ہے ۔قدیم جاہلیت اور جدید جاہلیت میں کوئی فرق نظر نہیں آرہاہے اس ماحول میں فاطمی طرز زندگی کو جاننا اور پہچاننا بہت ضروری ہے ۔
1. حضرت زهراؑ، امام زمان ؑکے لئے نمونہ :
ہماری زندگی کے ہر پہلو کی اصلاح کے لئے بہترین آئیڈیل کا ہونا ضروری ہے جو سب کے لئے نمونہ ہو۔ ہمارے ائمہ اطہار علیہم السلام بھی اپنے لئے آئیڈیل رکھتے تھے امام زمان علیہ السلام بھی اپنے لئے آئیڈیل رکھتے ہیں اور ان کے مطابق اپنے اعمال انجام دیا کرتے ہیں اور وہ خود فرماتے ہیں کہ "بیشک پیامبر اسلام ﷺ کی بیٹی میرے لیے نمونہ ہیں" ۔اس خاتون میں وہ کونسی خصوصیات ہیں کہ جس کی بنا پر امام زمانہ علیہ السلام ان کو اپنے لئے نمونہ قرار دیتے ہیں ۔ درحالیکہ امام زمانہ خود عالم بشریت کے لئے نمونہ ہیں۔جنکی اطاعت سب واجب ہے ۔
2. شوہرکا حترام :
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی مختصر سی زندگی عشق و محبت سے سرشار ہے اپنے شوہر ، بچوں کے لئے لباس ، خوراک کی درخواست کرنا ایک عورت کی ابتدائی اور معمولی کاموں میں سے ایک ہے لیکن حضرت زہرا سلااللہ علیہا اس چھوٹے سے کام کو بھی اپنے شوہر سے درخواست نہیں کرتی تھیں ۔ کائنات کی عورتیں ان سے سبق حاصل کریں اور ان کو اپنی زندگی میں سرمشق اور نمونہ قرار ردیں ۔اور زندگی میں صبر اور تحمل سے کام لیتے ہوئےشوہر کے دارایی اور ناداری میں معاون اور مددگار ثابت ہوں۔
ایک کامیاب عورت وہ ہے جو اپنے شوہر کے ہر کام میں شریک ہواور اس کے خوشی اور غم کاحصہ بنے اگر خاندانی زندگی میں شوہر یا بیوی ایک دوسرے سے محبت کرے یا ایک دوسرے کو عفو و بخشش کرے ۔تو ان کی خاندانی زندگی مستحکم اور مضبوط ہوگی ۔لیکن خداناخواست ان کے درمیان تعاون اور تعامل نہ ہو تو یہ خاندان ایک جنگی میدان بن کر رہ جاتا ہے ۔
3. شوہر کے کارخیر میں مدد :
حضرت زهرا علیہ السلام، امام علی علیہ السلام کے ہر کار خیر میں مدد کرتی تھیں ہر کمال کے حصول میں مولا کے ساتھ دیا کرتی تھیں ۔ ایک دن پیامبر اسلام نے امام علی علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یا علی ؑ ،آپ نے فاطمہ ؑ کو کیسا پایا ؟ عرض کیا ی"ا رسول اللہ نعم العون فی طاعہ اللہ" میں زہرا کو اطاعت الہی میں بہترین مددگار پٖایا ۔ٖ
عورتیں روحانی طاقت کے مالک ہوتی ہیں وہ اپنی لطافت و نزاکت کے ساتھ اپنے شوہر کے لئے بہترین یار و مدددگار بن سکتی ہیں اگروہ اس راہ میں کسی کو اپنی زندگی میں نمونہ قرار دیں۔ تو انکی خاندانی زندگی کے بہت سی پریشانیاں، آسانی سے برطرف ہوسکتی ہے لیکن اس دنیا میں عورتوں کے لئے حضرت فاطمہ علیہاالسلام سے بڑاکوئی آئیڈیل اور نمونہ نہیں ہے ۔
4. عفت و حیا
عفت و حیا انسان کی باطنی طاقت ہے روایات میں عفت اور پاکدامنی کو ایمان اور تقوی کا جز شمار کیا گیا ہے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا عفت اور حیا میں بھی نمونہ ہیں ان کی بچپن سے ہی حیا اور عفت کے پیکر تھیں تاریخ میں موجود ہے جب آپ اپنا حق باغ فدک طلب کرنے خلیفہ اول کے پاس اپنے گھر سے باہر نکلی ہیں تو آپ نے ایسی حجاب کی جسکا تذکرہ یوں کیا گیا ہے«هی لاثت خمارها علی رأسها واشتملت بجلبابها تطأ ذیولها» ، انکی سر پر روسری تھی خود کو چادر سے لپٹائی ہوئی تھی یہاں تک انکی چادر ان کے پاوں کے نیچے آرہا تھا ۔
امیر المومنین نے فرمایا : ایک دن رسول گرامی اسلامﷺ نے اصحاب سے سوال کیا کونسی چیر عورتوں کے لئے افضل ہے سب خاموش ہوگے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن جب حضرت فاطمہؑ سئ پوچھا تو آپ نے فرمایا : بہترین چیز عورتوں کے لئے یہ ہے کہ انکی نظر کسی نامحرم پر نہ پڑے اور کسی نامحرم کی نظر ان پڑے ۔جب پیامبر گرامی اسلامﷺ اس جواب سے آگاہ ہوئے بہت خوشحال ہوئے اور فرمایا: انہوں نے صحیح جواب دیا اور وہ میرا جسم کا ٹکڑا ہے ۔
اگر آج کی عورتیں صرف اسی موضوع حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے درس لیں عفت اور حیا کی رعایت کریں اور خود کو نامحرموں سے بچائیں ۔ آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے معاشرے میں لباس تقوی ختم ہوتے نظر آرہا ہے در حالیکہ ایمان اور تقوی حیا اور عفت کے سایہ میں حاصل ہوتے ہیں حیا اور عفت میں مردوں اور عورتوں کو خاص خیال رکھنا چاہیے اور اس راہ میں حضرت فاطمہ ؑ کو اپنا سرمشق اور نمونہ قرار دیں ۔
ایک دن آیت اللہ حسن زادہ آملی نے اپنے شاگردوں سے فرمایا : کہ نامحرموں سے بچوچاہئے مرد ہو یا عورت ہو ۔سارے شاگرد پریشان ہوگئے اور ان سے سوال کرنے لگے کہ ہم نے آج تک سنا تھا عورتیں نامحرم ہوتی ہیں لیکن آج آپ بتا رہے ہیں کہ مرد بھی نامحرم ہوتا ہے اس کی وجہ کیا ہے وضاحت فرمائیں اس وقت انہوں نے فرمایا کہ ہر وہ انسان جو آپ کو دین سے ، قرآن ،اہل بیت ؑ، نماز، روزہ اور نیکیوں سے دور کرے وہ نامحرم ہے چاہیے مرد ہو یا عورت ہو ۔
5. دعا برای ہمسایہ
گزشہ دور میں جب کوئی ہمسایہ بیمار ہوجاتا تھا تو سارے بستی والے اس کی عیادت کے لئے جاتے تھے۔ ایک اس کے گھر کے کاموں کو انجام دیتا تھا اور دوسرا ،ا س کے برتن صاف کرتا تھا سارے ہمسایہ والے کوئی نا کوئی کام انجام دیتے تھے لیکن عصر حاضر کے ترقی یافتہ لوگوں میں دین اور انسانیت باقی نہیں رہی جس کے بنا پر ظلم و ستم ، جھوٹ و فریب ، غداری و دھوکا ، بے دینی و بے ایمانی ،لاپروائئ اور نا انصافی جیسی انواع اور اقسام کے غیر اخلاقی اورغیر انسانی کام چاروں طرف انجام پارہے ہیں ۔ ایسے دور میں فاطمی طرز زندگی کو بیان کرنے کی اشد ضروت ہے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے ہمسایہ والوں کے خاص دعا کی ہے انکی حق میں نصیحت کی ہے ۔
قال الامام الکاظم (ع): کانَتْ فَاطِمَةُ ع إِذَا دَعَتْ تَدْعُو لِلْمُؤْمِنِینَ وَ اَلْمُؤْمِنَاتِ وَ لاَ تَدْعُو لِنَفْسِهَا فَقِیلَ لَهَا یا بِنْتَ رَسُولِ اَللَّهِ (ص)إِنَّک تَدْعِینَ لِلنَّاسِ وَ لاَ تَدْعِینَ لِنَفْسِک فَقَالَتِ اَلْجَارَ ثُمَّ اَلدَّارَ. امام کاظم (ع) نے فرمایا ، میں نے موسی بن جعفرسے ، انہوں نے اپنے والد بزرگوار سے ۔ انہوں نے ، اپنے اباو اجدادعلیهم السلام، سےسنا ہے فرماتے ہیں : جب بھی حضرت فاطمه علیها السلام دعا کرتی تھی تو تمام مومنین اور مومنات کے لئے دعا کرتی تھی اور اپنے لئے دعا نہیں کرتی تھی ان سے پوچھا گیا : اے دختر رسول خدا صلی الله علیه و آله، آپ لوگوں کے دعا کرتی ہیں کیوں اپنے لئے دعا نہیں کرتی ہیں ؟ فرمایا الاجار ثم الدار ۔پہلے ہمسایہ کے لئے دعا کریں پھر اپنے لئے دعا کریں ۔
یہ کچھ فاطمی طرززندگی کے اصول اور اداب ہیں جس کی رعایت سے ہم اپنی زندگی کو پرسکون بناسکتے ہیں ۔