حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جوانوں کے جدید طرز زندگی (Lifestyle) کے تباہ کن اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے خطے لداخ کے شہر جمو میں مقیم اسٹیوڈینس نے" جوانوں کے طرز زندگی امام باقر علیہ السلام کی نظر میں" (The Role of Youth Lifestyle in Imam Baqer's Thoughts) پر ایک عالیشان کانفرنس کا انعقاد کیا۔
جسمیں مختلف یونیورسٹیز کے اسٹیوڈینس کے ساتھ ساتھ خطے لداخ کے مائیہ ناز علمی اور مذہبی شخصیتوں نے از جملہ حجت الاسلام والمسلمین شیخ انور شرف الدین ، حجت الاسلام والمسلمین محمد حسین لطفی ، شیخ جواد حبیب ، محمد حسنین روکی اسٹیوڈینس کے صدر ،سید جمال موسوی اور جناب محمد مختار نے شرکت کی جنہوں نے بہترین انداز میں کانفرانس کے موضوع پر حاصل خیر گفتگو کی اور اسلامی طرز زندگی کے فواید اور اثرات سے آگاہ کرتے ہوئے مغربی طرززندگی کے تباکن اثرات سے جوانوں کو آگاہ کیا ہے ۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا :
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
اسلامی طرز زندگی (Islamic Lifestyle)اپنے اندر بے پناہ وسعت اور جامعیت رکھتی ہے اسلام کی یہ بڑی اہم خصوصیت ہے کہ وہ زمانے کے حالات اورمقتضیات پر کھرا اتر تا ہے۔ صحیح و غلط کی تمیز کے لیےاسلام نے اپنے ماننے والوں کو ایسا معیار عطا کیا ہےجس کی روشنی میں وہ صحیح اور غلط کے درمیان امتیاز کر سکتے ہیں ۔ لیکن جدیدیت کے شوق میں اسلامی اصول وقوانین سے صرف نظر اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی پر وا ہ کیے بغیرہر نئی چیز کو گلے لگانے میں فخر محسوس کر نا نہایت مذموم عمل ہے ۔
افسوس کا مقام ہے کہ اسلام کے ماننے والوں کا ایک بڑا طبقہ آج اسلا می طرز حیات سے بےزار اور مغربی طرززندگی (Western Lifestyle) کا دل دادہ ہو تاجارہا ہے ۔ اسلامی طرز حیات انہیں فرسودہ نظر آتا ہے لیکن جدید طرززندگی خواہ وہ سیکڑوں برائیوں اور خباثتوں کا مجموعہ ہی کیوں نہ ہو ترقی یافتہ ہو نے کی علامت نظر آتی ہے ۔ جدید طرز زندگی کے سبب سماج و معاشرے میں برائیوں کا جو سیلاب آیا ہوا ہے اس کا اندازہ مختلف شعبہاے حیات کا تجزیہ کر کے لگایا جا سکتا ہے۔
آج کل کے اعداد وشمار کے مطابق مغربی ممالک اور مذہب و عقائد سے عاری ممالک میں نوجوانوں میں جرائم ہر روز بڑھتے جارہے ہیں ۔یہ جرائم ،چوری ،قانون شکنی ،علم ودانش کی طرف بے اعتنائی ،منشیات کی لت ،بے حیائی اور مختلف قسم کی برائیاں ،ایمان سے عاری تربیت اور خلقت کے قانون کی نافرمانی کا نتیجہ ہیں ، کیونکہ گناہ اورگندی باتیں بے دینی کا نتیجہ ہیں ، جس نے جوانوں اور ان کے سر پرستوں کی زندگی کو مکدّر اورناگوار بنا دیا ہے اور معاشرے کو شدید طور پر معطل کرکے رکھدیا ہے۔
آج جوان مختلف مشکلات سے روبرو ہے جن سے ماضی کا جوان نہیں تھا کل نہ سوشل میڈیا پہ گونا گوں قسم کے مسائل تھے اور نہ اس کا وجود، کل نہ اتنے ٹی وی چینلز تھے اور نہ نیٹ کی آج جیسی سہولت، کل ضروری باتوں کو جاننے کے لئے ایک ہی طریقہ تھا کہ کسی ماہر کے پاس جایا جائے، آج ہر فلیڈ اور ہر میدان کی بیسک و بنیادی معلومات سے دقیق مفاہیم تک چھوٹے سے موبائل اسکرین پر نیٹ کے ذریعہ دسستیاب ہیں، کل خود کو گناہوں سے بچانا آسان تھا کہ اپنے آپ کو ایسی جگہوں پر لے جانا پڑتا تھا جہاں انسان گناہ کر سکے۔
آج ہر قسم کے گناہ کے لئے محض انسان کو تنہائی کی ضرورت ہے اور وہ انٹرنیٹ کے ذریعہ کہیں بھی پہنچ سکتا ہے اور بڑے سے بڑے گناہ کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔ اس تمام صورتحال کو سمجھتے ہوئے ہمارے ماں باپ اور بزرگوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنے جوانوں کو لاحق خطرات کو باریکی کے ساتھ دیکھیں اور متوجہ ہوں کہ انکی دنیا بہت مختلف ہے اور وہ جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس سے ہم بہت دور ہیں اور ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کہ آج کے دور کے جوان کو کتنے چلینجز کا سامنا ہے۔
لہذٰا صبر و تحمل اور بردباری سے کام لیتے ہوئے جوانوں کو تھوڑا وقت دینے کی ضرورت ہے، انکے مسائل کو درک کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنی جوان نسل کی صحیح رہنمائی کی جائے تاکہ یہ لوگ زندگی میں کامیاب و سربلند ہو سکیں اور کیا ہی بہتر ہو کہ رہنمائی اپنے تجربات کے ساتھ دین کے ان اصولوں کی روشنی میں ہو جو جاوداں ہیں اور جنکی پیروی کرنے سے نہ صرف انسان سکون حاصل کرتا ہے بلکہ سربلندی کو کامیابی کو بھی اپنا مقدر بنا لیتا ہے۔