۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
حضرت خدیجه (س)

حوزه/ حضرت خدیجہ شہر مکہ میں پیدا ہوئی۔ آپ کے والد خویلد بن اسد اور مادر گرامی فاطمہ بن اصم تھی۔ آپ کو اسلام سے پہلے ہی اپنے اخلاق حسنہ کی وجہ سے طاہرہ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا، آپ دوران جاهلیت میں اور بعثت کے بعد بھی خواتین عرب کے لیے برترین نمونہ تھیں۔

تحریر: خانم گل چہرہ جوادی

حوزه نیوز ایجنسی | حضرت خدیجہ شہر مکہ میں پیدا ہوئی۔ آپ کے والد خویلد بن اسد اور مادر گرامی فاطمہ بن اصم تھی۔ آپ کو اسلام سے پہلے ہی اپنے اخلاق حسنہ کی وجہ سے طاہرہ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا، آپ دوران جاهلیت میں اور بعثت کے بعد بھی خواتین عرب کے لیے برترین نمونہ تھیں اور آج کے دور میں بھی آپ کے فضائل اخلاقی اور کمالات معنوی کو خواتین اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں سکتی ہیں، رسول اکرم ص فرماتے ہیں: افضل النساء اہل الجنۃ۔ خدیجہ بن خویلد۔يعنی آپ جنت میں افضل ترین جواتین میں سے ایک ہے۔(مناقب امیر المومنین )

ہم اس عظیم خاتون کی زندگی کے بارے میں چند نکات کو بیان کریں گےجو ہمارے معاشرہ میں خواتین کے لئے نمونہ عمل بن سکتے ہیں۔

حضرت خدیجہ اور شوہر داری:

تربیت اسلامی کا ایک پہلو خواتین کو شوہر داری سیکھانا ہے، کیونکہ بہت سے اختلافات شوہر اور بیوی کے درمیان بیوی کی بد رفتاری کی وجہ سے پیش آتی ہے، جو آئین شوہرداری ، آداب معاشرت اور گھریلو ذمہ داریوں سے آشنا کانتیجہ ہے، حضرت خدیجہ (س) اصول شوہرداری کی رعایت کرتی تھی۔ اپنے گھر کے سکون کو محفوظ رکھتی تھی۔

محبت کا اظہار:

آپ مناسب وقت اور فرصت میں اپنے ہمسر گرامی حضرت رسول اکرم سے اپنی پیار اور محبت کا اظہار کرتی تھی اور رسول اللہ کے لئیے اپنی محبت کو اشعار کی صورت میں یوں بیان کیا کرتی تھی۔

فلو انني أمشيت في كل نعمة

ودامت لي الدنيا وملك الاكاسرة

فما سويت عندي جناح معوضة

اذا لم يكن عيني لعينيك ناظرة

(مستدرک سفینة البحار، ج 5،ص، 24)

ترجمہ؛ اگر دنیا کی تمام نعمتیں اور پادشاہوں کی تمام تر سلطنت میرے پاس ہو تو میرے لیے کوئی ارزش نہیں رکھتی جب تک آپ کی دیدار نہ کروں۔

شوہر کی دلجوئی کرنا:

ہر انسان اپنے فیملی میں سکون دیکھنا پسند کرتاہے اور مرد جب گھر سے باہر کام کاج کی وجہ تھک کر گھر آتا ہے۔روحی وجسمی تھکاوٹ کے ساتھ گھر میں جب پہنچ جائیں تو وہ چاہتا ہے کہ کوئی اسے دلجوئی کرئے۔ اس کی باتوں کو سنے، اس کی حوصلہ افزائی کرئے ۔تاکہ اس کی تمام تر تھکاوٹ دور ہوجائے، حضرت خدیجہ رسول اکرم ص کے لیے ایسے ہی ہمسر داری کیا کرتی تھی۔ جب رسول خدا مشرکین کی آزار و اذیت سے ناراحت ہو کے گھر تشریف لاتے تھےتو آپ ہی حضور کی دلجوئی کیا کرتی تھی۔آپ نے اپنے مال ،گفتار اور کردار کے ذریعے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی مدد کی اور رسول اللہ ص کو ہمیشہ درد و رنج کے موقع پر دلداری کی۔ رسول خدا فرماتے ہیں؛ خدیجہ وہ ہے کہ جب سب نے مجھ سے منہ پھیر لیا اس وقت خدیجہ نے میرا ساتھ دیا، مجھ سے مہر و محبت کی اور جب سب نے میری تکذیب کی تو خدیجہ نے میری تصدیق کی اور مجھ پر ایمان لائی۔ (بحار الانوار، ج 34)

شوہر کے انتخاب میں برترین معیار:

ہر جوان کو اپنی زندگی میں شادی بیاہ کی ضرورت ہے، اور اسلام نے ازدواج کو ایک امر مقدس اور عبادت قرار دیا ہے تاکہ شادی بیاہ کے ذریعے نسل کی بقا رہیں، جنسی ضرورت پوری ہوں، معاشرے میں امن و سکون برقرار ہو، اور معاشرہ میں سکون قائم ہو،۔ لیکن جو ترین نکتہ جوان لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اپنے لیے ہمسر کے انتخاب میں بہترین اور برترین معیار کو قرار دینا ہے، اور حضرت خدیجہ( س) تمام مسلمان عورتوں کے لیے آئیڈیل و نمونہ ہیں، آپ (س )نے اپنے مستقبل میں ہمسفر کے لیے جو معیار انتخاب اور ملاک ازدواج کے لئے مدنظر رکھی وہ رسول اللہ ص سے آپ کی گفتگو سے ہمیں پتہ چلتا ہے۔

جب حضرت خدیجہ رسول اکرم (ص )سے ازدواج کرنے کی خواہش کو اظہار کرتی ہیں تو آپ فرماتی ہیں کہ: میں آپ کی خوش اخلاقی، لوگوں کے ساتھ امانت داری اورصداقت کی وجہ سے آپ سے شادی کی خواہش رکھتی ہوں، (کشف النعمہ ج، 2)

شوہر کا احترام کرنا:

حضرت خدیجہ اپنے مال ودولت کو رسول اللہ پر خرچ کرنے کے باوجود کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام، حرکت، کوئی ایسی بات نہیں کرتی تھی جو رسول کی بے احترامی کا سبب بنے، جب رسول اللہ ص حضرت ابو طالب کے گھر سے واپس آتے تھے تو آپ کہا کرتی تھیں۔ الي بيتك فبيتي بيتك وانا جاريتك ۔تشريف لائے میرا گھر آپ کا گھر ہے اور میں آپ کی ایک خادمہ ہوں. (سفینہ البحار ج، 16)

صالح اولاد کی تربیت:

ماں بچوں کی رشد و پرورش میں موثر ترین عامل ہے۔ حضرت خدیجہ نص قرآن کے لحاظ سے ہم سب مسلمانوں کے روحانی ماں ہونے کے باوجود رسول اللہ ص کے بچوں کے لیے بھی ایک شائستہ ماں تھی، آپ نے نیک اور صالح اولاد کی تربیت کی ان میں سے حضرت زہرا سلام اللہ کو ایک خاص مقام و منزلت حاصل ہے، حضرت زہرا سلام اللہ اپنی والدہ سے بہت پیار ومحبت کرتی تھی آپ اپنی والدہ کی وفات کے وقت 5 سال کی تھی۔ مگر اس سن میں بھی آپ نے بہت ہی بے تابی کا، گریہ کیا اور اپنے پدر بزرگوار کے گرد گھومتی اور فرماتی تھی؛ یا أبه اين امي ۔بابا جان امی کہاں ہے؟ اس وقت جبرئیل نازل ہوا اور کہا یا رسول اللہ خدا کہہ رہا ہے۔ فاطمہ کو ہمارا سلام پہنچادیں اور والدہ سے وداع کریں۔ خدیجہ بہشت کے گھروں میں مريم اور آسیہ کے ساتھ ہے۔(امالی شیخ طوسی ) حضرت خدیجہ ایک ماں کی حیثیت سے دلسوز اور آگاہ مربی تھی۔

بچوں سے پیار و محبت:

بچوں سے پیار اور محبت کے ساتھ پیش انا اور ان کی عاطفی اور معنوی ضروریات کو پورا کرنا بھی تربیت اسلامی کے ایک اصول ہے، حضرت خدیجہ اس صفت کا کامل مصداق ہے۔ایک دن حضرت خدیجہ مريض تھی اور شاید اسی مرض میں آپ نے وفات پائی، اسما بن عميس روایت کرتی ہے کہ ایک دن میں خدیجہ کی عیادت کے لیے گئی۔ خدیجہ کو ناراحت اور مخزون پایا، میں نے انہیں دلداری دی کہ آپ ہمسر رسول ہو، اپنے اموال کو راہ خدا میں خرچ کی ہے، بہترین خواتین عالم میں محسوب ہوتی ہے، رسول اللہ ص نے چند بار بہشت کی خبر دی ہے،پھر کیوں پریشان ہیں آپ؟ تو آپ نے کہا َ! اسما !میں اپنی بیٹی فاطمہ کے لیے پریشان ہوں۔ وہ چھوٹی ہے اور اس دن جب وہ شادی کریں گی تو مادری کرنے کے لیے میں نہیں ہوں گی۔ تو اسما نے حضرت خدیجہ سے وعدہ کیا کہ میں فاطمہ کے لیے مادری کروں گی اور جب یہ ماجرا رسول اللہ ص کو معلوم ہوا تو اسما کے لیے دعا کی.( شجرہ طوبی ج، 3

حوالہ جات:

1) مناقب امیر المومنین، ج، 2، ص 18

2)امالی شیخ طوسی ص، 17

3)مستدرک سفینہ البحار ج، 5، ص، 4

4)بحارالانوار ج، 43،ص 13

5)کشف النعمہ ج، 2 ص 13

6) شجرہ طوبی ج، 2 ص، 33

7)سفینہ البحار ج، 16 ص 279421456 :)؟ت:

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .