تحریر: محمد حسین چمن آبادی
حوزہ نیوز ایجنسی| جنگ بدر کفار قریش اور مسلمانوں کے درمیان دوسری ہجری ۱۷ رمضان المبارک سے ۲۱ تک بدر کے مقام پر لڑی جانے والی حنگ کا نام ہے۔ بدر اصل میں قبیله جُهَیْنَہ کے کسی شخص کا نام تھا جس نے مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک کنواں کھودا اور بعد میں اس علاقه اور کنواں دونوں کو بدر کہا جانے لگا تھا اسی نسبت سے جنگ کا نام بھی بدر معروف ہوا۔
ابوسفیان ۴۰ افراد پر مشتمل ایک تجارتی قافلے کو کہ جن کے پاس ۵۰ ہزار دینار مالیت کی چیزیں تھیں لیکر شام کی طرف روانہ ہوا۔ کاروان شام سے واپس مدینہ کی طرف آرہا تھا که رسول خداؐ نے اصحاب کو حکم دیا کہ ابو سفیان کی سرپرستی میں جانے والے کاروان کی طرف حرکت کرئے تاکہ ان کے اموال کو مصادرہ کیا جاسکے اور اس طریقے سے دشمن کے اقتصادی قوت کو کمزور کیا جاسکے۔ابو سفیان مسلمانوں کی ٹیکنیک سے با خبر ہوا اور نہایت سرعت کے ساتھ ایک قاصد کو مدد طلب کرنے کی غرض سے مکہ کی طرف روانہ کردیا۔ قاصد نے ابوسفیان کے دستور پر عمل کرتے ہوئےاپنی سواری (اونٹ)کی ناک اور کان کاٹ کر خون لہولہان کیا، اپنی قمیص کو پھاڑ کر عجیب حلیے کے ساتھ مکہ میں وارد ہوا تاکہ لوگوں کی توجہ جلب کی جاسکے اور فریاد بلند کی: ((کاروان کو بچاؤ، بچاؤ، بچاؤ، محمد اور اس کے پیروکاروں نے کاروان پر حملے کا ارادہ کر لیا ہے))۔اس اعلان کے ساتھ ہی ابو جہل 950 جنگجوؤں کے ساتھ 700 اونٹ اور 100 گھوڑوں کو لیکر «بدر» کی طرف روانہ ہوا۔دوسری طرف سے ابو سفیان نے اپنے آپ کو بچانے کی غرض سے راستہ تبدیل کیا اور مسلمانوں سے اپنے آپ کو بچا کر مکہ پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ رسول خدا ؐ313 افرا دکو لیکر بدر کے مقام پر پہنچ گئے اور دشمن سے آمنا سامنا ہوا۔ اسی اثنا میں رسول خدؐ نے اپنے اصحاب سے مشوہ کیا تو اصحاب دو حصوں میں تقسیم ہوئے۔ ایک گروہ نے ابو سفیان کا پیچھا کرنے کو ترجیح دی جبکہ دوسرے گروہ نے ابو جہل کے لشکر سے لڑنے کو ترجیح دی۔ابھی فیصلہ نہیں ہوا تھا اسی دوران مسلمانوں کو دشمن کی تعداد ، اسباب وسامان اور تیاری کے متعلق اطلاع موصول ہوئی توان کے درمیان اختلاف پہلے سے بھی زیادہ شدت اختیار کر گیا ۔ رسول خداؐ نے دوسری رائ کو ترجیح دی اور دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار ہونے کا حکم صادر کر دیا۔لشکر اسلام اور لشکر کفر ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہوئے۔ مسلمانوں کی کم تعداد کو دیکھ کر دشمن حیرت زدہ رہ گیا۔ ادھر سے مسلمانوں میں سے بعض کفار کی تعداد اور جنگی ساز وسامان دیکھ کر کانپنے لگ گئے۔اس ناگفتہ بہ حالت کو دیکھ رسول خدا ؐ نے اپنے اصحاب کو غیبی خبر سے آگاہ کیا اور فرمایا: «خداوند کریم نے مجھے خبر دی ہے کہ ہم ان دوگروہوں میں سے ایک یعنی ابو سفیان کےتجارتی کاروان یا لشکر ابوجہل میں کسی ایک پر ضرور فتحیاب ہونگے، اور خدا اپنے وعدے میں سچا ہے۔ خدا کی قسم !گویا میں ابو جہل اورقریش کے بعض دیگر مشہور لوگوں کے قتل ہونے کی جگہوں کو اپنی آنکھوں سےدیکھ رہا ہوں»۔رسول خداؐ نے ا پنے اصحاب کے خوف ووحشت کو دیکھ کر وعدہ الہی بیان کرتے ہوئے فرمایا:«فکر نہ کریں اگرچہ ہماری تعداد کم ہے لیکن فرشتوں کا ایک عظیم گروہ ہماری مدد کے لیے آمادہ ہے» بدر کا میدان ریت کی نرمی کے سبب جنگ کے لیے بالکل مناسب نہ تھا لیکن خدا کی مدد سے رات کو خوب بارش ہوئی اور صبح صحرا جنگ کے لیے آمادہ وتیار ہوچکی تھی۔رسول خداﷺ نے پہلے دشمن کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھایا لیکن ابو جہل نے اسے رد کر تے ہوئے جنگ کا اعلان کردیا۔لشکر کفر کی طرف سے عتبه، شیبه اور ولیدجبکہ مسلمانوں کی طرف سے تین انصار میدان میں اترے۔کفار نے انصار کے جوانوں کو واپس کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے ہم پلہ قریش کے لوگوں سے لڑیں گے ۔ رسول خداؐ نے اپنے خاندان سے تین افراد عبیدة بن حارث،حضرت حمزهؑ اور حضرت على ؑ کو طلب کیا اور انہیں میدان جنگ کی طرف روانہ کردیا۔حضرت علىؑ نے ولید کو واصل جہنم کیا اور شیبہ جو حضرت حمزہ سے بر سرپیکار تھا ایک وار سے اس کا کام تمام کر دیا اور عبیدہ کی مدد کو پہنچے ۔ عتبہ کی ایک ٹانگ کٹی ہوئی تھی آپؑ کی ایک ضربت سے وہ بھی مرگیا، اور یوں حضرت علیؑ نے تینوں جنگجوؤں کو قتل کردیا۔ امیر المؤمنینؑ نے اپنی حکومت کے دوران معاویہ کو خط لکھتے ہوئے اس واقعے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: (( میں وہی ابو الحسن ہوں جس نے تیرے دادا عتبہ، چچا شیبہ، ماموں ولید اور بھائی حنظلہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا))
ان تین افراد کے قتل کے بعد ابو جہل نے عمومی حملے کا حکم دیا ااور ساتھ یہ نعرہ بلند کیا: اِنّ لنا الْعُزّی ولا عُزّی لکم،تو مسلمانوں نے نعرہ لگایا: اللّه مَوْلانا و لا مَوْلی لکم۔
رسول خداؐ ابو جہل کے قتل کے انتظار میں تھے جونہی اس کی موت کی خبر ملی تو آپ ؐ فرمایا: خدایا! تو نے اپنا وعدہ سچ کر دکھا یا۔
جنگ بدر کفار کی بدترین شکست اور مسلمانوں کے فتح کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ ابو جہل سمیت کفار کے بڑے نامدار سپہ سالار اس جنگ میں کام آئے۔کفار کے لشکر سے ۷۰ افراد قتل اور اتنی تعداد میں لوگ اسیر جبکہ ۱۴ مسلمان شہید جن میں ۶ مہاجر اور ۸ انصار تھے۔ غنیمت میں۱۵۰ اونٹ، ۱۰ گھوڑے سمیت دیگر جنگی سامان مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔
اس جنگ میں کفار نے حضرت علیؑ کو سرخ موت کا نام دیا کیونکہ ان کے بڑے جنگجو آپؑ کے ہاتھوں جہنم روانہ ہوئے تھے۔تاریخ کے کتب میں ان سب کا نام موجود ہے ۔
ایک شبہ اور اس کا جواب:
آج کے اسلام دشمنوں نے پیغمبر خداﷺ اور مسلمانوں کے بارے شبہ پیدا کرتے ہوئے کہا هے کہ مسلمانوں نے بغیر کسی اطلاع کے مخالفین کے قافلے کو لوٹنے کا ارادہ کیا اور یه کام غارتگری میں شمار ہوتا ہے۔
اگر ہم تعصب کی عینک اتار کر حقائق کو جاننے کی کوشش کریں تو یہ بات واضح ہے کہ پیغمبر خداؐ نے درج ذیل اسباب کی بناء پر ابوسفیان کے تجاری قافلے کی طرف رخ کیا کیونکہ:
اوّلا: مسلمان جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ گئے تو ان کے مال ومتاع سارے کا سارا کفار قریش نے اپنے قبضے میں لیا۔ فقہ کی رو مسلمانوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے غصب شدہ اموال کے بدلے ابوسفیان کے کاروان سے تقاص لیں یعنی اپنے اموال کے خسارے کا جبران کرے اگرچہ ابو سفیان کے تجارتی قافلے میں موجود اموال کی مالیت مسلمانوں کےاپنے غصب شدہ گھر اور اموال کا عشر عشیر بھی نہیں بنتا تھا۔
ثانیا: کفار قریش نے مسلمانوں کو مکہ کی زندگی میں بهت ستایا اور جتنا ظلم وستم کر سکتے تھے کیا، حتی رسول خداؐ کو قتل کرنے کا بھی قصد کیا لیکن اللہ تعالي نے ان کو کفار کی شر سے محفوظ رکھا۔
ثالثا: کفار قریش نے مسلمانوں کی ہجرت کے بعد یہ منصوبہ بنانا شروع کر رکھا تھا کہ مدینہ پر حملہ کر کے رسول خداؐ اور اہل ایمان کو صفحہ ہستی سے ہی مٹادے، اسی اثناء میں رسول خداؐ نے پیشگی حملے کا منصوبہ بنایا اور ابو سفیان کے کاروان کی طرف حرکت کی۔