تحریر: مہدی آخوند زادہ
حوزه نیوز ایجنسی| روزہ کا ایک فلسفہ یہ ہے کہ انسان اس مہینہ میں اپنے ان دشمنوں کے خلاف آمادہ ہو جنہوں نے اس سے تکامل کا راستہ چھین لیا ہے، دشمن سے مقابلہ کرنے اور اس پر غلبہ پانے کے لئے صبر و استقامت کی مشق کرے، شیطانی فریب سے بچنے وہوائے نفس پر غالب ہونے کے لئے جہاد اکبر کی مشق کرے، شاید اسی لئے اس مبارک مہینہ میں شیطان کو سخت زنجیروں میں مقیّد کر دیا جاتا ہے، تاکہ انسان کی اس آمادگی میں رکاوٹ ایجاد نہ کر سکے۔
یہاں سے ہم ایک سوال کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ کیا روزہ انسان کے اندر ضعف ایجاد کرتا ہے ؟
ضعف یا قوت؟
یہ درست ہے کہ حالت روزہ میں انسان کو بعض اوقات نقاہت کا احساس ہوتا ہے جو پیاس اور بھوگ کاطبیعی تقاضا ہے ،اسی نقاہت کو بعض افراد ضعف سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ ضعف اور نقاہت میں فرق ہے۔ نقاہت ایک وقتی احساس کا نام ہے جو بہت جلدی ختم پو جاتا ہے بلکہ انسان اگر اسرار اور فلسفہ روزہ سے واقف ہو تو شدیدترین گرمیوں کے روزے میں بھی اسے بجائے سستی اور نقاہت لذّت ،نشاط اور طمانینت کا احساس ہوتا ہے جیسا کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ گرمیوں میں رکھنے والے روزہ کو بے حد عزیز رکھتے تھے۔
یہ بھی درست ہے کہ روزہ بعض افراد کے لئے جسمانی ضعف کا بھی باعث بنتا ہے۔ لیکن جسمانی ضعف اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس سے انسان بھی ضعیف ہو جائے بلکہ ممکن ھے کہ اس جسمانی ضعف کے باوجود انسان خود کو عزم و ارادے اور استقامت کے لحاظ سے اتنا قوی کر لے کہ جسمانی ضعف اسکے عزم و ارادے کی راہ میں رکاوٹ ایجاد نہ کر سکے کیونکہ یہ بات علمی اور تاریخی شواہد کے اعتبار سے مسلّم ھے کہ مضبوط عزم و ارادے کے سامنے جسمانی تہکاوٹ یا ضعف مانع ایجاد نہیں کر سکتا ۔اس کے بر خلاف جسم کتنا ہی قوی کیوں نہ ہو لیکن عزم و ارادے کی سستی اسکے حوصلوں کو سرد کر دیتی ہے اور انسان عمل کے میدان میں پیچھے رہ جاتا ہے ۔ پس روزہ ممکن ہے بعض افراد کے لئے وقتی ضعف کا سبب بنے لیکن دوسرے طرف یھی روزہ انسان کے اندر صبر ،تحمّل،استقامت ،قوت برداشت اور قوت عزم و ارادہ پیدا کرتا ہے ۔ان معنوی قوتوں کے حاصل ہونے کے بعد جسمانی ضعف کسی بھی طرح کی رکاوٹ ایجاد نہیں کر سکتا اور انسان کی بلند روح جسمانی ضعف پر غالب آجاتی ہے ۔یہ اس صورت میں ہے کہ جب یہ فرض کیا جائے کہ روزہ رکھنے سے جسمانی ضعف پیدا ہوتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ روزہ انسان کو جسمانی اعتبار سے سالم اور متعدد قسم کے امراض سے محفوظ کر دیتا ہے۔
یہاں سے ہمیں تیسرے اور چوتھے سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے اور وہ یہ کہ آب و غذا اگر چہ جسم کا تقاضا ہے اور عام حالات میں انسان کے لئے بھوک اور پیاس ناگوار اور سخت ہوتی ہے، لیکن مذکورہ اہداف و فوائد اور بعد میں بیان ہونے والے عظیم اسرار کی خاطر انسان کے لئے یہ ناگوار چیز نہایت عزیز، لذّت بخش اور پسندیدہ ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ عاشق اور محب روزہ ہو جاتا ہے جس طرح امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور نماز کے لئے فرمایا تھا کہ خداجانتا ہے ” اِنِّی اُحِبُّ الصَّلَوٰةَ “ میں عاشق نماز ہوں یا امام سجاد علیہ السلام ماہ رمضان کے آخر میں شدید ترین گریہ کے عالم میں اس مبارک مہنہ کو الوداع کرتے ہیں :” اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَکْرَمَ مَصْحُوبٍ مِنَ الْاَوْقَاتِ “اے کریم ترین ساتھی تجھ پر سلام۔
روزہ کے ان اہداف کو دیکھتے ہوئے انسان بہت خوشی کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے حاصل کی ہوئی حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیتا ہے جس طرح ایک طبیب کے مشورے پر انسان بہت سی حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیتا ہے حتّیٰ ضرورت پڑنے پر قطع اعضا اور آپریشن کے لئے بھی تیار ہوجاتا ہے بلکہ اس عمل کے لئے ڈاکٹر کو بڑی سے بڑی مقدار میں اجرت دیکر بعد میں شکر گزار بھی ہوتا ہے۔
حلال چیزوں کے حرام ہونے کا ایک اور بڑا مقصد بھی ہے جو پہلے بیان ہوا یعنی زندگی کی یکسانیت سے نجات تاکہ انسان ان روزمرّہ عادتوں کے زندان سے نکل کر بلند امور و معارف کی طرف متوجہ ہو سکے۔
آزادی یا پابندی؟
انسان کے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں میں سے ایک اہم سوال یہ تھا کہ روزہ کے وقت انسان شدید پابندی کی حالت میں ہوتا ہے اور یہ درست بھی ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ انسان کو بلند اہداف تک پہنچنے کے لئے اپنے اوپر پابندیاں عائد کرنی پڑتی ہیں۔ پابندیاں اگر چہ سخت ہوتی ہیں لیکن بغیر پابندی کے کوئی ہدف اور کمال حاصل نہیں ہوتا ہے۔ ایک طالب علم، دانشمند اور فنکار کو اپنے بلند اہداف تک پہنچنے کے لئے اپنے اوپر سخت پابندیاں عائد کرنی پڑتی ہیں جنمیں سر فہرست وقت کی پابندی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی حلال چیزیں اپنے اوپر حرام کرنی پڑتی ہے ورنہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔
سابقہ بحث کے بعد آخری سوال کہ روزہ نہ رکھنے کی صورت میں انسان کے اندر کون سا نقص پیدا ہوتا ہے ؟
اس کا جواب بہت آسان ہو گیا ۔ یہ سوال ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ کھانا نہ کھانے سے انسان کے اندر کون سا نقص پیدا ہوتا ہے، پانی نہ پینے ، سانس نہ لینے یا حرکت نہ کرنے سے انسان کو کیا مشکل پیش آتی ہے ؟
روزہ نہ رکھنے سے انسان در حقیقت ان تمام اسرار سے محروم ہو جاتا ہے جو روزہ کے اندر قرار دئے گئے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ روزہ کے فوائد سے بھی محروم ہو جاتا ہے ،جس طرح سے کھانا پانی اور حرکت کے بغیر انسان زندگی سے محروم ہو جاتا ہے اسی طرح دین اور احکام دین کو ترک کر دینے سے انسان کی معنوی و حقیقی موت واقع ہو جاتی ہے اگر چہ ظاہرا وہ زندہ اور حرکت کر رہا ہوتا ہے”سواء محیاھم و مماتھم “ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی موت اور حیات خدا کے نزدیک برابر ہے۔
سابقہ ابحاث کے ضمن میں روزہ کے کچھ فلسفے و اسرار بیان ہوئے اہم اسرار کو چند فصلوں میں بیان کیا جارہا ہے۔
تطہیر وتزکیہ:
تطھیر اگر چہ تمام عبادتوں کا فلسفہ ہے اور خدا انسان کو زندگی کے تمام مراحل میں پاک و پاکیزہ دیکھنا چاہتا ہے ” وَ اللّٰه یُحِبُّ الْمُتَطَهرِیْن “ لیکن ماہ رمضان میں یہ معنی زیادہ وسیع اور قابل لمس شکل میں ظاہر ہوتا ہے ۔ اس با برکت مہنہ میں انسان ایک خاص آمادگی کے ساتھ اپنی تطہیر کے لئے کوشش کرتا ہے ۔تطہیر روزہ کے ان اہم ترین اسرار میں سے ہے جسکے ذریعے نہ صرف روزہ میں بلکہ روزہ دار اور اس کے تمام اعمال میں وزن پیدا ہو جاتا ہے۔
ماہ رمضان میں کرم الٰہی کے دسترخوان سے انسان کو بہت سے اوصاف و کمالات کسب کرنے ہیں ،لیکن کسی بھی صفت اور کمال کا حصول اس بات پر متوقف ہوتا ہے کہ انسان نے اپنے اندر کتنی طہارت پیدا کی ہے کیونکہ کمالات کا مسکن پاک انسان اور اسکی پاکیزہ روح ہے، آلودہ مقامات پر یا تو کمالات پیدا ہی نہیں ہوتا یا اگر پیدا ہوجائے تو وہ بھی آلودہ ہو جاتا ہے۔
ماہ رمضان میں انسان کو جو سب سے بڑا کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اس مبارک مھینے میں اسے اپنی تطہیر کرنی ہے کیونکہ تطہیر کے بغیر انسان کو نہ تو روزوں سے کچھ حاصل ھو گا ،سوائے بھوک اور پیاس کے، نہ تلاوت قرآن سے اسکے اندر کوئی کمال پیدا ھو گا سوائے تھوڑے سے ثواب کے اور نہ ہی شب قدر سے کچھ کسب کر سکے گا۔
مراحل تطہیر و طریقہ تطہیر:
تطہیر کوئی ذہنی اور مفہومی شئی نہیں ہے کہ انسان ذہن میں یہ تصور کر لے کہ میں پاک ہونا چاہتا ہوں اور وہ پاک ہو جائے بلکہ تطہیر کے لئے انسان کو چند مراحل سے گزرنا پڑہتا ہے
لباس و بدن کی تطہیر:
تطہیر کا سب سے ابتدائی اور آسان مرحلہ یہ ہے کہ انسان اپنے ظاہر یعنی اپنے لباس اور بدن کو پاک وصاف کرے۔ اتفاقاً اسلام نے اسی پہلے مرحلے کے لئے بہت تاکید کی ہے حتی کہ نظافت کو نصف ایمان قرار دیا ہے کیونکہ یہ بعد کے مراحل کو طے کرنے کے لئے ایک آغاز ہے۔ انسان جس طرح لباس و بدن کے ظاہر کی تطہیر کو اہمیت دیتا ہے اسی طرح اسے باطنِ بدن کی بھی تطہیر کرنی چاہئے اور باطن بدن کی تطہیر کا بہترین وسیلہ روزہ ہے۔اسی لیے روایات میں روزہ کو زکات بدن سے تعبیر کیا گیا ہے۔
رسول اللہ(ص) نے فرمایا ہے:
”لِکُلِّ شَیٴٍ زَکَاةٌ وَ زَکَاةُ الْاَبْدَانِ الصِّیَامُ
ہر شی کی ایک زکات ہے اور بدن کی زکات روزہ ہے۔یعنی جس طرح زکاة مال کو پاک کرتی ہے اسی طرح روزہ بدن کو پاک وسالم کرتا ہے۔
حواس کی تطہیر:
دوسرے مرحلہ میں انسان کو اپنے حواس کی تطہیر کرنی ہے ، حواس سے مراد انسان کی سماعت، بصارت، زبان اور دیگر حواس کی تطہیر ہے۔ انسان اپنی آنکھ یعنی بصارت کی تطہیر کرے تاکہ” خائنة الاعین“ یعنی خیانتکار آنکھوں کا مصداق نہ بن جائے ، انسان اپنی سماعت کی تطہیر کرے تاکہ آلودہ سماعت سے خدا کا کلام نہ سنے، ماہ رمضان میں خدا کی طرف انسانوں کو دعوت دی جاتی ہے لیکن گناھوں سے آلودہ سماعتیں اس دعوت کو نہیں سن سکیں۔
انسان اپنی زبان اور قوت گویائی کی تطہیر کرے تاکہ غیبت، فحش، چاپلوسی اور غیر منطقی باتوں سے آلودہ زبان پر نام خدا نہ آئے کیوںکہ انسان کبھی بھی اس بات پر راضی نہیں ہوتا کہ وہ ایک نہایت پاک و پاکیزہ چیز کو کسی گندے اور نجس ہاتھ میں پکڑا دے۔
ماہ رمضان میں حواس کی تطہیر کے لئے کثرت سے روایات وارد ہوئی ہیں۔
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں :”مَا یَصْنَعُ الصَّائِمُ بِصِیَامِه اِذَا لَمْ یُصِنْ لِسَانَه وَسَمْعَه وَبَصَرَه وَ جَوَارِحَه
روزہ دار اپنے اس روزے کا کیا کرے گا جس میں وہ اپنی زبان، سماعت،بصارت اور اعضاء کو محفوظ نہ رکھے۔
خیال کی تطہیر:
انسان کی ایک بہت بڑی اور باطنی آلودگی تخیّل کی آلودگی ہے ۔ آلودہ تخیّلات راہ علم و کمال میں ایک سنگین رکاوٹ بن جاتا ہے لہذا انسان کے لئے اہم ہے کہ وہ اپنے تخیلات کو پاک کرے اور اگر انسان کو اپنے خیالات کی پاکیزگی کا اندازہ لگانا ہے تو یہ دیکھے کہ وہ حالت خواب میں کیا دیکھتا ہے کیوں کہ حالت خواب میں حواس کے سو جانے کے بعد تخیل زیادہ فعّال ہو جاتا ہے اور حالت بیداری کے تخیلات کو مجسم شکل میں پیش کرتا ہے۔
فکر کی تطہیر:
یہ ایک بالاتر مرحلہ ہے لہذا سابقہ مراحل سے سخت تر بھی ہے۔ انسان خدا کی مدد کے بغیران مراحل تطہیر کو طے نہیں کر سکتا اور مرحلہ جتنا سخت تر ہو اسی مقدار میں خدا سے استمداد کی ضرورت بھی زیادہ ہے ۔ شیطان مسلسل فکر انسانی میں وسواس ڈالتا رہتا ہے۔
”یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ “ اور انسان پر شیطانی وحی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
” اِنَّ الشَّیَاطِیْنَ لَیُوحُونَ اِلی اَوْلْیَائِهمْ “ تاکہ انسان کے اندر فکری انحراف پیدا کر دے اور فکری انحراف انسان کے دین ،مذہب اور اعتقادات سب کو منحرف کر دیتا ہے یہاں تک کہ یھی فکری انحراف لشکر امام علی علیہ السلام کے مقدس سپاہیوں کو خوارج کی شکل میں تبدیل کر کے خود امیر الموئمنین علیہ السلام کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیتا ہے۔ لہذا اس شیطانی شر سے بچنے کے لئے خدا نے جو طریقہ بتایا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے پروردگار کے ذریعے شیطانی وسواس سے پناہ طلب کرو:”قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِکِ النَّاسِ اِلٰه النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الخَنَّاسِ “
یعنی خدا سے مدد طلب کرو۔ جب انسان کی فکر پاک ہوجاتی ہے تو اسکے تعقّل، ادراک اور طرز فکر میں بھی طہارت پیدا ہو جاتی ہے اور انسان افواہوں و تخیلات کے بجائے عقل اور وحی کو اپنے ادراک کا منبع قرار دیتا ہے۔
تطہیر قلب:
یہاں قلب سے مراد دھڑکتا ہوا دل نہیں بلکہ اس سے مراد حقیقت انسان اور روح انسان ہے ۔ ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد انسان کا دل عرش خدا اور حرم خدا بن جاتا ہے:
” اَلْقَلْبُ عَرْشُ الرَّحْمٰن “ قلب انسان عرش خدا ہے۔” اَلْقَلْبُ حَرَمُ اللّه وَ لَا تُسْکِنْ فِی حَرَمِ اللّٰه غَیْرَه “”تمہارا دل حرم خدا ہے ۔اس میں غیر خدا کوسکونت نہ دو۔
تقویٰ:
روزہ کے اہم ترین اسرار میں سے ایک تقویٰ ہے بلکہ اگر تقویٰ کو اپنے وسیع معنی کے تناظر میں دیکھا جائے تو تمام اسرار کی بازگشت تقویٰ کی طرف ہوتی ہے۔ شاید اسی لئے قرآن نے جب فلسفہٴ روزہ بیان کیا تو اسی مطلوبہ صفت کو روزہ کا فلسفہ قرار دیا۔
”یَا اَیُّهاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن“
دیگر امّتوں کی طرح تم پر روزہ واجب قرار دیا گیا کہ شاید تم صاحب تقویٰ بن جاؤ۔لیکن تقویٰ قرآن اور معارف اسلامی کے ان مظلوم ترین الفاظ میں سے ہے جسکے معنی میں اس حد تک تحریف کی گئی ہے کہ اس لفظ کو تقویٰ کے بالکل بر عکس معنی میں استعمال کیا جانے لگا ہے۔ سستی، جمود اور سادہ لوحی کو تقویٰ کا نام دیدیا گیا ہے۔
سستی و جمود یا نشاط و ارتقاء؟
مسلمان معاشرے میں مسیحی، یہودی اور ہندو تہذیب و افکار کا یہ اثر ہوا کہ دیگر اسلامی معارف کی طرح تقویٰ کوبھی بالکل بے روح اور بے کیف کر دیا گیا ہے۔ تقویٰ کو غاروں، تہہ خانوں اور گوشئہ عافیت کی بے روح عبادتوں سے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ ساری دنیا سے بے خبر، معاشرے سے دور، انسانوں سے روگرداں اور دوست و دشمن سے لا پرواہ ایک سادہ لوح انسان کو متّقی کا نام دے دیا گیاہے جبکہ یہ تقویٰ اس تقویٰ کی بالکل ضد ہے جو رسول اللہ(ص)، امیرالمومنین علیہ السلام اور دیگر ائمّہ و انبیاء علیہم السّلام کے پاس تھا۔ اگر تقویٰ کا بہترین نمونہ رسول اللہ(ص) اور امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی ہے تو یہ دونوں شخصیتیں ہمیشہ میدان عمل میں نظر آئیں، دشمنوں سے مبارزہ کرتے ہوئے نظر آئے، مسلمانوں کے حالات و مسائل کو حل کرتے ہوئے نظر آئے، کبھی بازار میں،کبھی مسجد میں، کبھی گھر میں اور کبھی اصحاب کے درمیان۔اسلام میں تقویٰ سستی اور جمود کا نام نہیں ہے بلکہ تقویٰ یعنی ایک مسلسل حرکت اور ارتقاء کا نام ہے۔ قرآن نسورہ حمد کے بعد سورہ بقرہ کی ابتداء ہی میں متّقین کے اوصاف بیان کی ہے اور متقین کے تمام صفات کو صیغہ مضارع میں بیان کیا ہے جو عمل مسلسل اور ایمان مترقّی کا استمرار اور دوام ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
تقویٰ وقایة سے ہے اور وقایة یعنی سپر ۔چونکہ انسان کو ایمان اور عمل کے ذریعے مسلسل تکامل کرنا ہے اور اس تکاملی سفر کا جو راستہ ہے اس پر شیطان قسم کھا کر بیٹھا ہے کہ انسان کو گمراہ کرے گا لہٰذا اسے شیطانی حملوں سے بچنے کے لئے الٰہی سپر کی ضرورت ہے اوروہ سپر تقویٰ ہے ۔ تقویٰ یعنی انسان کے اندر موجود ایک ایسی دفاعی قوت کا نام ہے جو شیطان کے ہر حملے کو ختم کر کے انسان کو اپنے مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔
مشکلات پر غلبہ:
جیسا کہ بیان کیا گیا کہ تقویٰ انسان کے اندر پیدا ہونے والی ایک معنوی قوّت کا نام ہے جو نہ صرف یہ کہ انسان کو نقائص اور گناہ سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ اسی قوّت کی مدد سے انسان اپنی روزمرّہ مشکلات پر بھی غلبہ پا سکتا ہے۔
انسان جس عالم میں زندگی گزار رہا ہے وہ عالم طبیعت ومادّہ ہے اور عالم مادّہ عالم تزاحم واختلاف ہے۔ اس عالم میں ایک طرف خود طبیعت کے تقاضے مختلف ہیں اور دوسری طرف سے انسان کے میلانات، رجحانات اور تقاضے مختلف ومتضاد ہیں اور ہر ایک اپنے تقاضوں کی تکمیل چاہتا ہے۔ لہٰذا انسان کو طرح طرح کی مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے ۔ان مشکلات کی سنگینی اور اپنی ناتوانی کو دیکھتے ہوئے انسان کو ایک ایسی قوت سے وابستہ ہونے کی ضرورت ہے جس کی مدد سے وہ ہر مشکل پر غلبہ پا سکے ۔ اس کے لئے انسان اگرچہ طرح طرح کی قوتوں کو آزماتا ہے لیکن نتیجے میں اسے عجز و ناتوانی کے سوا کہیں کچھ نظر نھیں آتا کیونکہ منبع قوت، ذات خدا ھے اورپھر جب وہ خدا کی طرف رخ کرتا ہے اور اس سے مدد طلب کرتا ہے ۔”ایّاک نستعین“
پروردگار ہم صرف تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں تو خدائے کریم اسکی معجزاتی نصرت کرنے کے بجائے نصرت کے ایک قانون اور نظام (System) کی طرف راہنمائی کر دیتا ہے تاکہ اس کے ذریعے وہ زندگی کی ہر مشکل پر غلبہ پاتا رہے ۔لہٰذا ارشاد فرمایا ”وَاسْتَعِیْنُوا بِالصّبْرِ وَالصَّلَواةِ“ ”صبر اور نماز کے ذریعے مدد حاصل کرو “۔نماز سے اس لئے کیونکہ بڑی قوّتوں سے ارتباط انسان کی چھوٹی مشکلات کو حل کر دیتا ہے اور خدا سے بڑی کوئی قوّت نہیں ہے جس سے ارتباط کا بہترین طریقہ نماز ہے،اورصبر کے ذریعہ اس سے مدد حاصل کرو کیونکہ صبر انسان کے اندر قوّت ،استقامت ،پائیداری اور استحکام پیدا کرتا ہے ،بلکہ صبر کے معنی ہی استقامت اور پائیداری کے ہیں ۔یہ استقامت کبھی ظلم کے مقابلے میں ہے ۔ کبھی امتحانات و مشکلات کے مقابلے میں اور کبھی علم و فضل وکمالات کو حاصل کرنے کے لئے صبر واستقامت کی ضرورت پڑتی ہے۔ روزہ کا ایک راز یہ بھی ہے کہ روزہ انسان کے اندر صبرو استقامت پیدا کرتاہے۔ صبر کے مصادیق میں سے ایک مصداق روزہ ہے اسی لئے اس آیت”وَاسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ“میں صبر کی تفسیر روزہ سے کی گئی ہے۔ اس مقام پر فلسفہ روزہ یعنی تقویٰ کے معنی میں اور وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ اب روزہ کے نتیجہ میں انسان کے اندر ایک ایسی معنوی قوّت پیدا ہو جاتی ہے جس میں شدید استقامت اور پائیداری بھی پائی جاتی ہے اور اسکے بعد انسان ہر مشکل سے با آسانی عبور کر جاتا ہے۔روزہ انسان کو معنوی اعتبار سے اتنا بلند کر دیتا ہے کہ مادّی مشکلات اس کے تکامل کے سفر میں رکاوٹ ایجاد نہیں کر سکیں۔