۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
وفات حضرت خدیجه (س)

حوزہ / حجت الاسلام عامری نے 10 رمضان المبارک یومِ رحلت حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیہا کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: ہم حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے زیارتنامے میں پڑھتے ہیں کہ "سلام ہو آپ پر اے وہ باعظمت خاتون، جس نے پیغمبر (ص) کی اس وقت مدد کی جب انہیں اور اسلام کو مدد کی ضرورت تھی"۔ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا کہ "اسلام کی اتنی مدد کسی مال نے نہیں کی جتنی حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا کی دولت نے کی"۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے حجۃ الاسلام ابوذر عامری نے 10 رمضان المبارک یومِ رحلت حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیہا کے موقع پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: 10 رمضان المبارک کا دن حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیہا کی رحلت کا دن ہے۔ ایک ایسی باعظمت خاتون جس کے ہم سب واقعاً مقروض ہیں۔ وہ باعظمت خاتون جو رہبر معظم انقلابِ اسلامی کے بقول " أمُّ المومنین بھی ہیں اور أمُّ الائمہ بھی"۔

خدا اور حضرت جبرائیل کا حضرت خدیجہ (س) کو سلام / ام المومنین (س) کی رسول اللہ (ص) کو تین وصیتیں

ایران کے شہر "درجزین" کے امام جمعه نے کہا: حضرت خدیجه سلام اللہ علیہا کے متعلق پیغمبر گرامی اسلام(ص) ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: "اِشْتَاقَتِ اَلْجَنَّةُ إِلَی أَرْبَعٍ مِنَ اَلنِّسَاءِ - مَرْیَمَ بِنْتِ عِمْرَانَ وَ آسِیَةَ بِنْتِ مُزَاحِمٍ زَوْجَةِ فِرْعَوْنَ وَ هِیَ زَوْجَةُ اَلنَّبِیِّ فِی اَلْجَنَّةِ وَ خَدِیجَةَ بِنْتِ خُوَیْلِدٍ زَوْجَةِ اَلنَّبِیِّ فِی اَلدُّنْیَا وَ اَلْآخِرَةِ وَ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ" جنت، چار عورتوں کی مشتاق ہے: حضرت مریم بنت عمران، فرعون کی زوجہ حضرت آسیہ بنت مزاحم جو کہ جنت میں نبی کی بیوی ہوں گی، اور دنیا و آخرت میں نبی (ص) کی زوجہ حضرت خدیجہ بنت خویلد اور حضرت فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم"۔

انہوں نے کہا: ہم حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے زیارتنامے میں پڑھتے ہیں کہ "سلام ہو آپ پر اے وہ باعظمت خاتون، جس نے پیغمبر (ص) کی اس وقت مدد کی جب انہیں اور اسلام کو مدد کی ضرورت تھی"۔ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا کہ "اسلام کی اتنی مدد کسی مال نے نہیں کی جتنی حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا کی دولت نے کی"۔ یہ تمام فضائل تھے کہ خود خداوند متعال اور حضرت جبرائیل علیہ السلام اس باعظمت بی بی کو سلام پہنچانے کی خواہش کرتے نظر آتے ہیں۔

حجت الاسلام عامری نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو "مجاہد فی سبیل اللہ" قرار دیا اور ان کی پیغمبر اکرم (ص) سے تین وصیتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: جب حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی بیماری بڑھ گئی اور سنجیدہ حالت اختیار کر گئی توآپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: "یا رسول اللّه! اِسمَع وصایای" یعنی "اے رسول خدا (ص)! "میری وصیتوں کو سن لیجئے!"

أولا، فإنی قاصرةٌ فی حقِک، فاعفُنی ۔یا رسول اللّه: پہلی بات یہ کہ میں آپ کا حق ادا کرنے میں قاصر رہی ہوں؛ آپ سے درخواست ہے کہ مجھے معاف فرمائیں!۔ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حاشا و کلا، ما رأیتُ منکِ تقصیرا فقد بلغتِ جهدکِ و تعبتِ فی ولدی غایةَ التعبِ، و لقد بذلتِ أموالَکِ و صرفتِ فی سبیل اللّه مالَکِ۔ ہرگز ایسا نہیں ہے، نه صرف یہ کہ میں نے آپ سے تمام رفاقت ازدواجی میں معمولی سے بھی کوتاہی و غلطی نہیں دیکھی بلکہ آپ نے بچوں کی تربیت و دیکھ بھال میں اپنی پوری کوشش کی ہے، اس راہ میں سختیوں کو تحمل کیا ہے اور آپ کے پاس جو بھی مال تھا آپ نے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا۔

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا: یا رسول اللّه! الوصیةُ الثانیةُ؛ أوصیکَ بهذه- أشارت إلى فاطمةَ علیها السّلام- فإنها یتیمةٌ غریبةٌ من بعدی فلا یۆذینها أحدٌ من نساءِ قریش و لا یلطمن خدَّها و لا یصحن فی وجهَها و لا یرینها مکروها۔

میری وصیت دوم یہ ہے کہ اور اسی وقت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی جانب اشارہ کیا، میری یہ بیٹی میری وفات کے بعد یتیم ، تنہا ور اکیلی ہو جائے گی،اس کا خیال رکھیئے گا کہ قریشی عورتوں میں سے کوئی اسے تنگ نہ کرے، اسے تکلیف نہ دے اس پر ہاتھ نہ اٹھائے کوئی اس کے سامنے آواز بلند نہ کرے(چیخے چلائے نہیں) اور کوئی ایسا کام نہ کرے کہ جس سے فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ناراض ہو!

"و أما الوصیةُ الثالثةُ، فإنی أقولها لابنتى فاطمة علیها السّلام و هی تقول لک، فإنی مستحیةٌ منکَ یا رسول اللّه"

اورمیری وصیت سوم یہ ہے کہ جسے میں اپنی نور نظر فاطمه علیہا السلام سے کہوں گی اور وہ آپ سے کہہ دے گی، اس لئے کہ مجھے آپ سے براہ راست کہتے ہوئے شرم محسوس ہو تی ہے۔ فقام النبی صلّى اللّه علیه و آله و خرج من الحجرة، فدعت بفاطمة علیها السّلام و قالت: یہ سننے کے بعدرسول خداﷺکھڑے ہو گئے اور حجرے سے باہر تشریف لے گئے. جناب خدیجه کبریٰ سلام اللہ علیہا نے حضرت فاطمه زهراء علیہاالسّلام کو اپنے نزدیک بلایا اور کہا: "یا حبیبتی! و قرة عینی، قولی لأبیک: إن أمی تقول: إنی خائفة من القبر، أرید منکَ رداءَکَ الذی تلبِسُه حین نزول الوحی؛ تکفننی فیه"۔ "اے عزیز دل من! اوراے میری قلب کی خوشی و راحت کے سامان! اپنے بابا سے کہو کہ میری ماں یہ کہہ رہی ہے :مجھے قبر سے خوف محسوس ہوتا ہے میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ مجھے اس عباء کا کفن دیئے گا کہ جس میں آپ پر وحی نازل ہوئی تھی"۔

حضرت فاطمه علیہا السّلام فوراً حجرے سے باہر تشریف لائیں اور اپنی والدہ حضرت خدیجه سلام اللہ علیہا کا پیغام رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا دیا۔

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوراً اٹھے اور آپ نے اپنی عبائے مبارک حضرت فاطمه علیہاالسّلام کو دے دی. جب حضرت زہراء علیہاالسّلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ عبا ء حضرت خدیجه علیہاالسّلام کو دی تووہ بہت زیادہ خوش ہوئیں!.

جب حضرت خدیجه علیہاالسّلام کی رحلت ہو گئی تو رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بنفس نفیس آپ کو غسل دیا اور حنوط کیا۔ جب کفنانے کا وقت آیا تو حضرت جبرئیل امینؑ نازل ہوئے اورعرض کیا: "یا رسول اللہ ﷺ! *خداوندنے آپ کو ہدیہ سلام دیا ہے اور نہایت خاص صورت میں تحیت و اکرام کیا ہے اورآپ سےفرماتا ہے: "إن کفن خدیجة من عندنا، فإنها بذلت مالها فی سبیلنا:" آپ کی شریکہ حیات خدیجه سلام اللہ علیہا کا کفن ہمارے ذمہ ہےاس لئے کہ اس نے اپنی تمام تر ثروت کو ہماری راہ میں لٹا دیا"۔

اس کے بعد حضرت جبرئیل نے وہ کفن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیا اور کہا: "یا رسول اللّه! هذا کفن خدیجة و هو من أکفان الجنة، أهداه اللّه إلیها" "اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ کفن خدیجه الکبریٰ سلام اللہ علیہا کا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے جنتی کپڑوں سے تیار کر کے انہیں ہدیہ کیا ہے!"۔

حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اپنی شریکہ حیات کو اپنی عبا کا کفن دیا اور اس کے بعد جنتی کپڑوں سے تیار کردہ کفن آپ کو دیا۔ یوں حضرت خدیجه سلام اللہ علیہا دو کفنوں کے ساتھ سپرد خاک کی گئیں؛ ایک کفن از طرف خدا اور ایک از طرف رسول اللہ ﷺ!

انہوں نے مزید کہا: یہ وہ اعزاز ہے امہات المؤمنین میں سے سوائے ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کے کسی کو حاصل نہیں ہوا۔

حوالہ جات:

شجره طوبى، الشیخ محمد مهدی الحائری، ج2، ص 234۔

ابن حجرالاصابه، ج4، ص275۔

شرهانی، حیاة السيدة خديجه، ص 282۔

محلاتی ، ریاحین الشریعه، ج2، ص412۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .