اتوار 2 نومبر 2025 - 12:30
محبت کا مثلث؛ خدا، انسان اور ہمسفر

حوزہ/دنیا کی چمک دمک میں انسان سب کچھ ڈھونڈ لیتا ہے؛ علم بھی، دولت بھی اور شہرت بھی، مگر خود کو نہیں پاتا۔ وہ زندگی کے میلے میں چلتا ہے، لوگوں کے درمیان رہتا ہے، مگر دل کے اندر ایک تنہائی ہے جو کسی شے سے نہیں بھر پاتی۔

تحریر: مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی| دنیا کی چمک دمک میں انسان سب کچھ ڈھونڈ لیتا ہے؛ علم بھی، دولت بھی اور شہرت بھی، مگر خود کو نہیں پاتا۔ وہ زندگی کے میلے میں چلتا ہے، لوگوں کے درمیان رہتا ہے، مگر دل کے اندر ایک تنہائی ہے جو کسی شے سے نہیں بھر پاتی۔

محبت کے وعدوں میں سکون ڈھونڈتا ہے، رشتوں کے ہجوم میں قرار تلاش کرتا ہے، کبھی کسی مسکراہٹ میں راحت دیکھتا ہے، کبھی کسی لمس میں اطمینان؛ مگر دل کے کسی کونے سے ایک دھیمی صدا اُٹھتی ہے:

“میں ابھی مکمل نہیں ہوں…”

انسان سمجھتا ہے کہ یہ ادھورا پن اُس کے کسی “نیمۂ گمشدہ” — یعنی ہمسفر — کے نہ ملنے کا نتیجہ ہے، لیکن حقیقت اس سے کہیں گہری ہے۔

وہ دراصل اپنی “ثلثِ گمشدہ” کھو چکا ہے، یعنی وہ رُکن جو محبت کے اس مثلث میں سب سے بلند اور مقدس تھا — خدا۔

جب وہ ضلع مفقود ہو جائے تو رشتے تو ملتے ہیں، مگر ربط نہیں؛ محبتیں ملتی ہیں، مگر معنی نہیں۔

زندگی کی تصویر مکمل تب ہوتی ہے جب خدا، انسان اور اُس کا ہمسفر —

تینوں ایک ہی نور میں جمع ہوں۔

🔹 آغازِ خلقت — مثلثِ نور کا ظہور:

قرآنِ کریم نے فرمایا:“هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا”(سورہ نساء: ۱)“وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اُسی سے اُس کا جوڑا بنایا۔”

یہ آیت محض تخلیقِ انسانی نہیں، بلکہ محبت کی الٰہی ساخت کا تعارف ہے۔

انسان اور اُس کا جوڑا دو جسم نہیں بلکہ ایک روح کے دو جلوے ہیں اور اس وحدت کا مرکز — وہ نقطۂ نور — خدا ہے۔

امام علی علیہ السلام نے فرمایا:“ابتدع الخلق ابتداعاً، وخلقهم خلقاً، بلا رويةٍ أجالها، ولا تجربةٍ استفادها…”(خدا نے مخلوق کو بغیر کسی سابقہ مثال کے پیدا کیا، محض اپنی ذات کے نور سے۔)یعنی عشق، وجود کی جڑ ہے اور خدا، عشق کا سرچشمہ۔

🔹 محبت کا بُنیادی زاویہ — خدا درمیان میں

جب خدا درمیان ہو، تو دو دل ایک نہیں بلکہ ایک روح بن جاتے ہیں۔

قرآن فرماتا ہے:“وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا، وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَوَدَّةً وَرَحْمَةً”(سورہ روم: ۲۱)ازدواجی تعلق میں سکون، محبت اور رحمت کا منبع خدا کی نشانی ہے۔

یہ “سکون” صرف جسمانی قربت نہیں —

وہ سکینت ہے جو خدا کی موجودگی سے پیدا ہوتی ہے۔

جب وہ درمیان سے نکل جائے تو “مودّت” خواہش بن جاتی ہے، “رحمت” کمزوری اور “سکون” وقتی تسلی میں بدل جاتا ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:“من تزوج امرأة لمالها أو جمالها وُکِل إلی ذلک، ومن تزوجها لدینها رزقه الله مالها وجمالها.”یعنی جو خدا کے لیے رشتہ جوڑے، اُسے دنیاوی نعمتیں خود بخود عطا ہو جاتی ہیں۔

🔹 عشق دو نہیں، تین کا معاملہ ہے:

عشق، دو دلوں کے درمیان نہیں — تین کے درمیان ہوتا ہے:

ایک وہ جو عشق کا سرچشمہ ہے — خدا

دوسرا جو اُس کا عکس ہے — انسان

اور تیسرا جو اُس عکس کا مظہر ہے — ہمسفر

یہ تین جب ایک دائرے میں جمع ہوتے ہیں تو زندگی عبادت بن جاتی ہے اور محبت، ذکرِ الٰہی کی خاموش تسبیح۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:“مَن تَزَوَّجَ فَقَد أحرَزَ نِصفَ دينِه، فليتَّقِ اللهَ في النِّصفِ الباقي.”یعنی جس نے نکاح کیا اُس نے اپنے دین کا نصف محفوظ کر لیا، لہٰذا باقی نصف میں خدا سے ڈرتا رہے۔

🔹 مثلث ٹوٹنے کا المیہ:

جب خدا درمیان سے نکل جاتا ہے تو محبت دو جسموں کے درمیان ایک معاہدہ بن جاتی ہے —

ایک سودا، ایک عارضی مسکراہٹ۔

روحانی وحدت کی جگہ نفسانی خواہش لے لیتی ہے۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:“أبغضُ الحلال إلى الله الطلاق.”اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ حلال، طلاق ہے، کیونکہ وہ مثلث جو خدا سے شروع ہونی تھی، خدا سے خالی ہو گئی۔

🔹 محبت کی عبادتی کیفیت

جب خدا درمیان آتا ہے تو محبت عبادت بن جاتی ہے۔

نظر، دعا میں بدل جاتی ہے؛ لبوں کی مسکراہٹ، ذکرِ خاموش میں ڈھل جاتی ہے۔

خدا کے ساتھ محبت میں نہ “میں” رہتی ہے نہ “تو” —صرف “ہم” رہتا ہے، جو “اُس” میں فنا ہوتا ہے۔

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:“أحبب حبيبك هوناً ما، عسى أن يكون بغيضك يوماً ما، وأبغض بغيضك هوناً ما، عسى أن يكون حبيبك يوماً ما.”(محبت میں بھی خدا کا لحاظ رکھو، کہ وہی دلوں کو بدل دیتا ہے۔)

🔹 واپسی ثلثِ گمشدہ کی طرف

اے انسان!

اس سے پہلے کہ اپنی “نیمۂ گمشدہ” کو تلاش کرے، اپنی “ثلثِ گمشدہ” کو لوٹا لا، کیونکہ جب تک خدا واپس نہ آئے، کوئی دو نیمے مل کر بھی ایک روح نہیں بن سکتے۔

اگر خدا درمیان آ گیا تو نہ تُو تنہا رہے گا، نہ وہ، بلکہ تم دونوں اُس میں ایک ہو جاؤ گے۔

یہی عشقِ حقیقی ہے:

عشق جو خدا سے شروع ہو، خدا پر تمام ہو اور درمیان میں صرف رحمت و سکون چھوڑ جائے —

وہی عشق ہے۔

محبت اُس وقت مقدس ہے جب وہ خدا کے نام پر ہو، ازدواج اُس وقت پائیدار ہے جب اُس کی بنیاد تقویٰ پر ہو اور انسان اُس وقت مکمل ہے جب اُس کے دل میں خدا آباد ہو۔

اگر خدا درمیان ہو تو ہر محبت عبادت ہے اور اگر خدا غائب ہو تو ہر محبت آزمائش۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha