تحریر: سیدہ فاطمہ نقوی
سخن اول:
زندگی میں کچھ ایسے لمحات آتے ہیں جب جسم کسی حالت میں بھی ہو، مگر روح اپنے معبود کے لیے سر بسجدہ رہتی ہے۔
اس کی روح جلال و جبروت کی دہلیز پر پہنچ کر عظمتوں کو پا لینے کی منتظر ہو جاتی ہے۔
ہر ملت اور قوم میں ہمیشہ زندگی کے دو پہلو ہوتے ہیں:
1 - انسان کا اپنے عزیزوں، اپنے پیاروں سے عشق و محبت اور ان کے لیے ایثار و قربانی اور ہمدردی کا جذبہ۔
2 - اپنے وطن، اپنے مذہب، عقائد اور نصب العین کے لیے عشق و محبت، ایثار و قربانی کا جذبہ اور جب بات اپنے دین اپنے عقیدے , اور نصب العین کی آجائے تو جس انسان نے جتنا اپنی روح کو صیقل دیا ہوتا ہے وہ اپنے عشق اپنے جذبوں کو حقیقی روپ دینے اور اپنے عشق کو دوام بخشنے اسی سمت گامزن ہو جاتا ہے۔
ایک ایسی لڑکی کی کہانی جس کی لطیف روح صرف اپنے پیاروں کے لیے ہی نہیں، بلکہ دکھی انسانوں کے لیے ہمدردی، محبت اور ایثار سے سرشار تھی؛ اسے اپنے دین و مذہب سے بھی گہرا لگاؤ تھا؛ اس نے دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے نرس کا پیشہ اختیار کیا وہ بہت مطمئن تھی، پھر کچھ یوں ہوا کہ جب وہ اپنے ہمسفر کے ہمراہ ایک نئی زندگی کا آغاز کرنے چلی، سرزمین شام پہ داعشیوں کے قبضے اور ظلم و ستم کے واقعات نے اسے بری طرح بے چین کردیا اور پھر اس حسین چہرے اور پاکیزہ روح والی لڑکی نے ایک فیصلہ کرلیا۔
ساتھیو!
داستان دوام عشق
شام میں داعشیوں کے قبضے اور شام میں پیش آنے والے واقعات کو سامنے رکھ کر لکھی گئ ہے ۔
ایک سنسنی خیز داستان جس میں کسی حد شام میں پیش آنے والے حالات کی عکاسی کی گئی ہے۔
اس کاوش کو ان عظیم ماؤں کے نام کرتی ہوں جو اپنے فرزند بی بی سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی خدمت میں ہدیہ کرکے سرخرو ہوگئیں۔
جو لوگ خاک کو کیمیا کرگئے؛ اے کاش! ایک نیم نگاہ ہم گنہگاروں پر بھی ڈال دیں۔
میں جاسوس نہیں!
وہ اپنے زانوں پر جھکی پوری طاقت سے چیخ رہی تھی، ایسا لگ رہا تھا جیسے پاگل ہو گئی ہو، وہاں موجود سپاہی اور آس پاس کھڑے لوگ سب اس کے گرد جمع ہو گئے تھے؛ سب کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے اور افسوسناک انداز میں اس کی طرف دیکھ رہے تھے...!!
کالے سیاہ گھنگریالے بال اس کے مقنع سے باہر جھانک رہے تھے، اس کے چہرے پر لگے خون کے دھبے آنسوؤں کی تری سے دوبارہ رنگین ہو گئے تھے۔
عربی لباس میں ایک بوڑھی اس کے قریب آئی اور اسے تسلیاں دینے لگی مگر وہ مستقل چیخ رہی تھی اور خدا خدا کی آوازیں لگا رہی تھی۔
خدایا! اتنا ظلم کیوں؟؟ خدایا! اتنا قتل و خوں؟
اتنی دیر میں ایک جوان لڑکی ھلال احمر کا گاون پہنے لوگوں کو ہٹاتی آگے بڑھی اور
اس کا ہاتھ تھامتے کان میں سرگوشی کی.!!
عطیہ بس کرو!!
بس کرو!!
تم اس طرح سب کو غمگین کر رہی ہو، لیکن عطیہ اسی طرح فریاد کرتی رہی؛ اچانک کسی نے پانی سے بھری بالٹی عطیہ پر انڈیل دی!!
سب نے مڑ کر دیکھا!
ایک چالیس پینتالیس سال کی خاتون جس نے سفید گاؤن پہنا تھا اور سفید گاؤن پر فوجی جیکٹ پہنی ہوئی تھی، جس کی جیب میں سے ریوالور باہر کی طرف لٹک رہی تھی....!!
پانی کی خنکی اپنے اوپر محسوس ہوتے ہی عطیہ ذرا سکون میں آ گئی اور گھٹنوں پر سر رکھ کر وہیں بیٹھ گئی۔
اس فوجی خاتون نے اس امداد گر لڑکی کو غصّے سے چیخ کر آواز دی!
اس فوجی خاتون نے اس امداد گر لڑکی کو غصّے سے چیخ کر آواز دی! سیدہ زینب! سیدہ زینب!
جی جی ڈاکٹر صاحبہ!
ابھی فوراً آتی ہوں۔
سیدہ زینب عطیہ کے پاس سے ہٹ کر جلدی سے ڈاکٹر صاحبہ کے پاس آکھڑی ہوئی۔
ڈاکٹر صاحبہ عطیہ کی طرف رخ کرکے اسے ڈانٹتے ہوے بولیں: عطیہ! "مجھے یہ نازک دل والے لوگ ہر گز پسند نہیں؛ اگر ایک دفعہ پھر تم نے یہ ہنگامہ کھڑا کر کے ہاسپٹل کا ماحول خراب کیا تو میں تمہیں یہاں سے روانہ کر دوں گی"! سمجھیں !!!!! یہ جنگ ہے تمہیں یہاں کام کرنے کے لیے ہر طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
عطیہ نے تائید کے انداز میں سر ہلایا پھر کچھ کہنا چاہا مگر بنا کچھ بولے خاموشی سے سر جھکائے ڈاکٹر صاحبہ کے سامنے کھڑی رہی۔
سیدہ زینب ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ ہاسپٹل کے اندر آگئی۔
یہ ہاسپٹل شہر حلب سے باہر بہت وسیع کیمپ لگا کر بنایا گیا تھا؛ ہاسپٹل زخمیوں سے بھرا ہوا تھا، جس میں عام شہریوں سے لے کر زخمی سپاہی بھی موجود تھے۔
زینب ایک فوجی کی زخمی ٹانگ کی مرہم پٹی میں لگ گئی؛ ساتھ ہی اپنے نرم اور میٹھے لہجے میں اس سے باتیں بھی کرتی جارہی تھی ۔
بھائی "میں نے سنا ہے تم محاذ پر دوبارہ واپس نا جانے کی وجہ سے بہت اپ سیٹ ہو، یعنی تمہارے لیے اب ہرگز یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ تم چل نہیں سکتے!!
دوڑ نہیں سکتے؟؟
لیکن میری نظر میں ایک ٹانگ کے بغیر بھی جنگ لڑی جا سکتی ہے ۔
محاذ پر جایا جا سکتا ہے!! لہٰذا اتنا پریشان مت ہو۔ ابھی تمہارے بازوں میں قوت ہے؛ زینب کی باتوں سے یہ جوان فوجی جس انداز میں سر ہلا رہا تھا لگتا تھا زینب کی باتیں اس کی سمجھ میں آگئیں ہیں۔
اس جوان کی پٹی بدلنے کے بعد زینب ایک بچی کی طرف آئی جس کے گلے کی بینڈج تبدیل کرنی تھی؛ اس بچی کو بھی دو دن پہلے ہی لائے تھے، وہ ننھی بچی بری طرح اپنی نمناک آنکھوں کو ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے رگڑ رہی تھی اور زینب کو اپنے نزدیک آتا دیکھتے ہی اس ننھی بچی نے آواز لگائی:" سیدہ زینب! سیدہ زینب! میری دوست خضرا مر گئی؟؟
اسی لمحے عطیہ کے رونے کی صدا بلند ہوئی؛
عطیہ خضرا کے پھول جیسے بے جان جسم کو اپنے سینے سے لگائے زور زور سے رہی تھی، زینب نے آگے بڑھ کر اس ننھی آلا کے بالوں میں مہربانی سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے دلاسہ دیا۔
" آلا میری جان!
خضرا نہیں مری؛ تمہاری پیاری دوست بھلا ایسے کیسے تمہیں چھوڑ کر جاسکتی ہے، وہ زندہ ہے اور تمہارے پاس آتی رہے گی، بس تم اسے دیکھ نہیں پاؤ گی، اسے فرشتے اپنے پروں پہ بٹھا کر آسمانوں کی سیر کروانے لے گئے ہیں؛ اگر تم نے یہ رونا دھونا بند نہیں کیا، وہ تم سے ناراض ہو جائے گی۔
سیدہ زینب نے دلاسے دے کر بڑی مشکل سے آلا کو چپ کروایا؛ ابھی آلا کی پٹی کرہی رہی تھی کہ ہاسپٹل کے کوریڈور میں شور و غل کی آوازیں سنائی دیں کچھ اور زخمیوں کو ہاسپٹل لایا گیا تھا۔ زینب نے آلا کو پیار کیا اور تیزی سے کوریڈور کی طرف دوڑی؛ ایک شامی فوجی ایک زخمی جوان سپاہی کو بازوؤں میں اٹھائے تھا اور دونوں کا لباس خون سے سرخ ہو رہا تھا، ایک نرس اسے سہارا دے کر نیچے لٹانے کی کوشش کررہی تھی؛ اس زخمی فوجی کا ایک بازو جو تقریباً اس کے کندھے سے جھول ہی رہا تھا، اس کے کندھے سے ٹوٹ کر زمین پر گرا۔
جاری ہے.....









آپ کا تبصرہ