بدھ 30 اپریل 2025 - 21:39
داستان دوام عشق: میں جاسوس نہیں (قسط 2)

حوزہ/ نرس نے زور سے چیخ ماری اور گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی، باقی نرسیں بھی خوف کی وجہ سے اس زخمی سپاہی کے نزدیک نہیں ہو رہی تھیں؛ایک نرس دوڑ کر ڈاکٹر کو بلا لائی، ڈاکٹر صاحبہ نے جو یہ صورتحال دیکھی تو غصّے سے چلائیں۔

تحریر: سیدہ فاطمہ نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی|

نرس نے زور سے چیخ ماری اور گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی، باقی نرسیں بھی خوف کی وجہ سے اس زخمی سپاہی کے نزدیک نہیں ہو رہی تھیں؛ایک نرس دوڑ کر ڈاکٹر کو بلا لائی، ڈاکٹر صاحبہ نے جو یہ صورتحال دیکھی تو غصّے سے چلائیں۔

مگر پہلی دفعہ تم لوگ ایسا کوئی زخمی دیکھ رہے ہو؟ ضروری ہے ہر دفعہ میں تم لوگوں کے سر پر سوار رہوں؟؟ میں ایک اکیلی کس کس کو دیکھوں؟؟ اس بے چارے کے بدن کا تمام خون بہہ چکا ہے، کچھ لمحوں میں ہی یہ دم توڑ دے گا۔

تم سب کھڑی تماشا دیکھتی رہو!

زینب نے ڈاکٹر صاحبہ کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی بڑی پھرتی سے اس زخمی سپاہی کا بازو زمین سے اٹھا کر اسٹرلیزہ کیا اور برتن میں رکھے برف میں دبا دیا، پھر سپاہی کے کندھے کے زخم کو دھویا اور اس کی پٹی کرنے میں مصروف ہو گئی، زینب یہ کام انتہائی پھرتی سے انجام دے رہی تھی، ڈاکٹر صاحبہ بھی بلکل خاموش تھی۔

اس روز زینب سارا دن اس زخمی جوان کے سرہانے اس کی تیمار داری میں لگی رہی ۔

رات میں ڈاکٹر صاحبہ نے زینب کو آواز دی!

زینب جو اب بہت تھک چکی تھی اور زخمی جوان کے نزدیک بیٹھی اونگھ رہی تھی، ڈاکٹر صاحبہ کی آواز پر چونک کر اٹھ بیٹھی!

کیا ہوا ڈاکٹر صاحبہ؟ کیا بات ہے؟

ڈاکٹر صاحبہ نے اسے اپنے روم میں آنے کا اشارہ کیا! زینب نیند سے جھومتی ڈاکٹر صاحبہ کے کمرے میں داخل ہوئی؛ تمام دوائیاں اور میڈیکل کا سامان ڈاکٹر صاحبہ کی میز پر بڑے طریقے سے رکھا تھا، باقی کچھ سامان بھی بہت ترتیب سے ڈاکٹر صاحبہ کے سامنے رکھا ہوا تھا، ڈاکٹر صاحبہ نے میز پر سے ڈاکٹری کا سفید گاؤن اٹھایا اور زینب کے سامنے رکھتے ہوئے نرم لہجے میں زینب کو مخاطب کیا! زینب سادات تم شاباش کی مستحق ہو ۔

"تم نے بغیر گھبراہٹ کے جس ماہرانہ انداز میں اس زخمی سپاہی کو سنبھالا. داد دینے کے لائق ہے ۔

میری توجہ تم پر تھی ۔

ً یہ جو سفید مقدس گاؤن یہاں میری میز پر رکھا ہے ۔

اس گاون کے لیے باعثِ اعزاز ہوگا کہ تم جیسی بہادر لڑکی اس کو اپنے ڈریس کی زینت بنائے گی ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بات جاری رکھتے ہوئے میز پر ڈاکٹری کا سفید جھگجھگاتا گاون زینب کے آگے بڑھایا ۔ مگر زینب نے گاون واپس ڈاکٹر صاحبہ کی جانب بڑھاتے ہوئے انتہائی ادب سے ڈاکٹر صاحبہ کو مخاطب کیا!

"بہت شکریہ ڈاکٹر صاحبہ!

میرے لیے بھی آپ کے ہاتھ سے یہ گاون پہننا باعثِ اعزاز ہوگا، لیکن ڈاکٹر صاحبہ! اسوقت ، میں ترجیح دوں گی کہ اس امداد گری کے لباس میں خدمت انجام دوں. جس پہ ہلال احمر کی مہر لگی ہے ۔

" ڈاکٹر صاحبہ نے سیدہ زینب کی بات سن کر تائید میں سر ہلاتے ہوئے گاون واپس میز پر رکھ دیا اور زینب سے بولیں: پتا ہے زینب سادات!

جب میں نے تمہیں پہلی دفعہ دیکھا تھا، تم اس جوان سپاہی حسین علی کے پاس تھیں؛ جسکا برین ہیمرج ہو گیا تھا اور تم نے ماشین الگ نہیں کرنے دی تھی، تم نے کتنی محبت سے کس طرح اس کا خیال رکھا ہوا تھا!

قابلِ تحسین ہو تم!

میں تمہیں اس ویرانے میں بنے چھوٹے سے ہاسپٹل میں خوش آمدید کہتی ہوں! اے پیاری لڑکی! کچھ لمحے کے لیے ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی گفتگو منقطع کی؛ پھر زینب کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا: نرسیں کہتی ہیں: تمہاری ماں شامی خاتون ہیں؟؟

جی میری ماں شامی اور والد افغانی ہیں، زینب جو فخر سے ڈاکٹر صاحبہ سے داد وصول کررہی تھی جواب دیا۔
جواب میں کہا: مگر میں نہیں سمجھتی جو زینب اس وقت میرے سامنے کھڑی ہے وہ صرف اس وجہ سے یہاں مدد کے لیے آئی ہے کہ اس کی ماں ایک شامی ہے۔

صحیح کہہ رہی ہوں نا؟؟ ڈاکٹر صاحبہ نے زینب کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا!

جی ایسا ہی ہے ڈاکٹر صاحبہ میں یہاں صرف اس لیے نہیں آئی کہ میری ماں کا تعلق اس سرزمین سے ہے، بس جس وقت سے یہاں داعیشیوں نے حملہ کیا اور یہاں کی رقت آمیز صورتحال معلوم ہوئی، میں یہاں آنے کے لیے بے چین تھی، اب مجھے موقع مل گیا، یہاں آنے کا، زینب نے تفصیل بیان کی۔

اللہ تمہیں کامیاب کرے اور تم صحیح سلامت اپنے وطن کو لوٹو! ڈاکٹر صاحبہ زینب کو دعائیں دیتی زینب کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتی اسے جنرل وارڈ میں لے آئیں، وہاں کچھ اور زخمی سپاہیوں کو لائے تھے؛ زینب نے ایک زخمی سپاہی کی مرہم پٹی کی، پھر اسے ڈرپ لگا کر اس کے خشک ہونٹوں کو گیلے کپڑے سے تر کیا ۔

کچھ دیر وہیں سپاہی کے پاس کھڑی رہی؛ رات کی سیاہی پھیل چکی تھی، ہاسپٹل میں ذرا دیر کو خاموشی ہوگئی تھی، نرسیں بھی ادھر ادھر بیٹھی اونگ رہی تھیں، زینب ہاسپٹل سے باہر نکل آئی، زمین پر ہر سو پھیلی چاندنی بہت بھلی لگ رہی تھی ۔

ہاسپٹل سے تقریباً 100 میٹر کے فاصلے پر پانی کا ٹینکر رکھا تھا؛ درمیان میں پردہ لگا کر ایک حصہ وضو کے لیے خواتین کے لیے کر دیا گیا تھا، زینب نے وضو کے لیے چلو میں پانی لے کر اپنے چہرے پر ڈالا، ابھی اس نے پانی چہرے پر ڈالا ہی تھا کہ اسے پردے کی دوسری طرف سے سرسراہٹ سی محسوس ہوئی، ساتھ پردے پر کسی مرد کا سایہ دکھائی دیا، زینب نے ایک ہی لمحے میں پردہ کھسکایا، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا ۔

زینب نے اسے اپنا خیال سمجھ کر جھٹکا اور پھر وضو کرنے لگی، وضو کرنے کے بعد وہیں ساتھ کھڑی فوجی جیپ کے پیچھے اپنا اسکارف بچھایا اور نماز کی نیت باندھ لی، رات کے اس پہر اپنے رب سے راز و نیاز کرنا کتنا اچھا لگ رہا تھا۔

زینب محو عبادت تھی کہ ذرا سا فاصلے سے اسے کسی کے رونے کی آواز سنائی دی آواز کسی خاتون کی تھی، زینب نے نماز ختم کی اور فوراً اس آواز کی سمت بڑھی، دیکھا کہ کچھ فاصلے پر ایک چھوٹے سے مٹی کے ٹیلے پر عطیہ بیٹھی ہے وہ روتی جاتی ہے اور مٹی میں ایک گڑھا کھودتی جاتی ہے؛ عطیہ کے آس پاس کچھ تصویریں بھی بکھری پڑی تھیں، زینب نے ذرا جھک کر تصویریں دیکھنی شروع کیں، چاند کی روشنی میں تصویریں زیادہ واضح نہیں تھیں، لیکن زینب سمجھ گئی کہ تصویریں عطیہ کے بچوں اور شوہر کی ہیں؛ عطیہ روتی جاتی تھی اور ایک ایک تصویر اٹھا کر گڑھے میں ڈال کر اس پہ مٹی ڈالتی جارہی تھی؛ زینب نے آگے بڑھ کر عطیہ کے ہاتھ سے تصویر لیتے ہوئے کہا: عطیہ یہ کیا کررہی ہو؟ تصویروں کو دفن کررہی ہو !!!! زینب تمہیں پتا ہے ننھی خضرا کا بے جان بدن دیکھ کر میری حالت اتنی خراب کیوں ہوئی؟ عطیہ آنسو پوچھتے ہوئے زینب سے مخاطب ہوئی: سیدہ زینب! ننھی خضرا میری بیٹی حدیث کی ہم شکل تھی؛ اس کے کھانے کا انداز، بولنے کا انداز، اس کی ضد، ہر روز میری نگاہوں کے سامنے ایک حدیث اور طہ زندہ ہوتے ہیں اور مرتے ہیں، بس میں نے یہی حل نکالا کہ فی الحال اپنے بچوں کو بھول جاؤں اور ان کی یادوں کو دفن کر دوں، تاکہ یہاں رہنے کی ہمت پیدا کر سکوں۔

جاری ہے....

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha