حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شام کی خاتون ڈاکٹر اور حافظہ قرآن کریم محترمہ ڈاکٹر حلا مصطفی کردی نے "دخترانِ طلبہ، سفیرانِ صلح و مقاومت" کے عنوان سے مدرسہ علمیہ نرجس(س) مشہد میں منعقدہ عظیم کانفرنس میں خطاب کے دوران شام میں محاصرے کے تلخ ایّام کے دوران اپنے تجربات حاضرین سے شیئر کیے اور مقاومت، اسلام پر فخر اور قرآن کریم کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کی۔
محترمہ مصطفی کردی نے شام کے شہروں فوئہ اور کفریا کے محاصرے کے دوران عوام کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا: شہر فوئہ چار ماہ تک داعش کے مکمل محاصرے میں رہا۔ اس دوران نہ پینے کا پانی میسر تھا، نہ مناسب غذا۔ صرف امدادی طیاروں کے ذریعے بنیادی ضروریات جیسے خوراک شہر میں پہنچائی جاتی تھیں۔
حالات اتنے سنگین تھے کہ نجات کی کوئی امید باقی نہ تھی اور عوام کی زندگیوں پر دائمی اضطراب سایہ فگن تھا۔ مگر جس چیز نے ہمیں زندہ رہنے کی امید دی، وہ قرآن کریم سے وابستگی تھی۔ قرآن ان ایّام میں ہمارے لیے امید کی ایک روشن مشعل تھا جو ہمیں ایمان اور مقاومت کا راستہ دکھا رہا تھا۔
انہوں نے محاصرے سے نجات کے دن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا: ان دنوں فیصلہ ہوا تھا کہ صرف دس بسوں کو محاصرہ توڑ کر نکلنے کی اجازت دی جائے گی۔ ہماری بس گیارہویں نمبر پر تھی اور نکلنے کی کوئی امید نہ تھی لیکن مسلسل سورہ نصر کی تلاوت کی برکت اور خدا کے لطف و کرم سے ہمارے دل میں امید پیدا ہوئی۔
اس شامی خاتون نے مزید کہا: اُس روز ایک غیر متوقع واقعہ پیش آیا؛ دسویں نمبر کی بس کے راستے میں ایک پتھر آ گیا جس سے وہ بس رک گئی اور اس کے رکنے سے گیارہویں بس کو آگے بڑھنے کا موقع ملا اور وہ محاصرہ توڑ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ واقعہ ہمارے لیے خدا کی عنایت اور قرآن کریم کی برکت کا واضح مشاہدہ تھا جس سے ہمارا ایمان خدا کی عظمت و قدرت پر مزید پختہ ہو گیا۔
محترمہ مصطفی کردی نے ایران اور شام میں حفظِ قرآن کے فرق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: شام میں ایران کے مقابلے میں حفظِ قرآن بہت دشوار ہے۔ تعلیمی سہولیات محدود ہیں اور حفظِ قرآن کو وہ توجہ حاصل نہیں جو ایران میں ہے۔ وہاں عمومی توجہ اسکولی تعلیم پر مرکوز ہے اور قرآن کا حفظ ایک ثانوی کام سمجھا جاتا ہے جبکہ ایران میں حفظِ قرآن کے لیے تمام سہولیات مہیا ہیں۔ اس لئے یاد رکھیں کہ یہ ایران کی ایک بہت بڑی نعمت ہے جس کی قدر کی جانی چاہیے۔ آپ ایرانی طالبات کو اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔









آپ کا تبصرہ