حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تجمع علمائے مسلمین لبنان کے ایگزیکٹو بورڈ کے صدر شیخ حسان عبداللہ نے حوزہ علمیہ قم کے ازسرنو قیام کی 100ویں سالگرہ کی مناسبت سے منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: یہ انجمن اہل سنت و شیعہ علما پر مشتمل ہے جس کے ارکان کی تعداد 330 سے زائد ہے جن میں سے نصف اہل سنت اور نصف شیعہ ہیں اور ان کا مقصد امت اسلامی کے اتحاد اور تفرقہ کے خاتمے کے لیے کوشش کرنا ہے۔
انہوں نے کہا: آیت اللہ حاج شیخ عبد الکریم حائری (رح) نے حوزہ علمیہ کے قیام کے لیے جو اقدامات انجام دیے، وہ ایک عظیم کارنامہ تھا کیونکہ ایک اسلامی شیعہ حکومت جس میں حوزہ علمیہ نہ ہو اور ایک ایسی حکومت جس میں حوزہ موجود ہو، ان دونوں کے درمیان نمایاں فرق ہے۔ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "کاش میری امت کے سر پرایک تازیانہ (لٹک رہا) ہوتا تاکہ وہ دین کے احکام سیکھتے"۔ کیونکہ فقہ سیکھنا اور دینی مسائل کا علم حاصل کرنا ترقی و رشد کا راستہ ہے اور اسلامی عزت و کرامت کا سبب بنتا ہے۔
شیخ عبداللہ نے کہا: ایک وقت تھا جب کوشش کی جاتی تھی کہ دینی علما کو امت کے اثر و رسوخ سے دور رکھا جائے اور ان کی موجودگی صرف مساجد تک محدود ہو جائے لیکن درحقیقت معاشرے کو اس سے کہیں زیادہ دینی مہارت کی ضرورت تھی اور یہ صرف حوزہ علمیہ کے ذریعہ ہی ممکن ہے کیونکہ حوزہ کو مختلف علمی شعبہ جات کا حامل ہونا چاہیے اور صرف فقہ و اصول تک محدود نہیں بلکہ دیگر اسلامی علوم میں بھی وسعت ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا: آیت اللہ حائری نے جس حوزہ علمیہ قم کی بنیاد رکھی وہ آج کی جدید حوزہ کی تشکیل کی اساس ہے۔ اگر ہمیں ایک جدید حوزہ چاہیے تو ہمیں اسی پرانی بنیاد سے آغاز کرنا ہوگا اور یہ کام عملی اور معیاری ترقی کے ذریعہ ممکن ہے۔
شیخ حسان عبداللہ نے کہا: جامعة المصطفی ایک عالمی یونیورسٹی ہے جس نے حوزہ علمیہ کے بطن سے جنم لیا ہے اور آج اس کی شاخیں لبنان، شام اور دیگر اسلامی ممالک میں موجود ہیں جیسے اللہ نے ایران کو ایک اسلامی حکومت عطا کی جو حوزہ سے نکلی ہے اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ حوزات علمیہ کو اسلامی ممالک میں منتقل کریں تاکہ اسلامی فکر کی بنیاد پر امت میں تبدیلی لائی جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا: امام خامنہای آج حوزہ علمیہ کے ایسے عالمی ارتقاء پر زور دیتے ہیں اور حوزہ کو ایک فعال اور متحرک ادارہ تصور کرتے ہیں جو بین الاقوامی سطح پر تعامل کے قابل ہو اور حقیقی ضروریات کو پورا کرے۔
شیخ عبداللہ نے کہا: جب قم سے فارغ التحصیل علماء لبنان آتے ہیں تو وہ ایک مثبت دینی پیغام اور فکر لے کر آتے ہیں اور اسے پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی فکر لبنانی انقلابی معاشرے کی تشکیل میں مؤثر ثابت ہوئی، ایسا معاشرہ جو مقاومت کی پیدائش کا باعث بنا اور بالآخر جنوبی لبنان کی آزادی (2000ء) پر منتج ہوا۔
انہوں نے کہا: آج حوزہ علمیہ قم کو "حوزہ مادر" اور دنیا کی سب سے بڑی شیعہ حوزہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لبنان میں ہمارا قم سے گہرا رابطہ ہے خصوصاً حوزۃ الرسول اکرم (ص) اور جامعة المصطفی کے شعبے کے ذریعہ۔ ہم نے لبنان میں حوزات علمیہ کے لیے ایک انتظامی ادارہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ تمام حوزات کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہو اور ہر ایک جداگانہ طور پر کام نہ کرے۔ اس کے لیے حوزات علمیہ کے ذمہ داران وقتاً فوقتاً مل بیٹھتے ہیں اور مشترکہ مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور ان تمام نشستوں میں حوزہ علمیہ قم کلیدی اور اثرگذار کردار ادا کرتا ہے۔
انہوں نے آخر میں کہا: امتِ اسلامی کے لیے اس وقت تک ایک باوقار اور مکمل زندگی ممکن نہیں جب تک حوزات علمیہ موجود نہ ہوں۔ بلکہ میں کہتا ہوں: جہالت کی تاریکی کو نور میں تبدیل کرنے والا اگر کوئی ذریعہ ہے تو وہ صرف حوزہ علمیہ ہی ہے۔









آپ کا تبصرہ