تحریر: مولانا گلزار جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی | یہ الفاظ ذہنِ انسانی میں گردش کرتے ہی مظلومیت کی ایک مکمل داستان اور غم کا ایک طوفان بن کر اُبھر آتے ہیں۔ عقل حیرت و استعجاب میں ڈوب جاتی ہے۔ تاریخ کے سنہرے اوراق پر جب صبر کی تفسیر سینۂ نینوا پر ہک کی مانند لکھی جاتی ہے، تو اس عبارت کی حقیقت کو خونِ جگر سے تحریر کرنا چاہیے۔
جب منبر سلونی کی دختر نیک اختر، جلے ہوئے خیموں کی قناتوں پر نمازِ شب ادا کر رہی تھی، جس کے احترام میں اُس وقت پوری کائنات کھڑی تھی، مگر غموں اور اندوہ کے بوجھ نے اسے بیٹھا دیا تھا۔ چاروں طرف سے جبر و استبداد نے گھیر رکھا تھا، مگر وہ صبر کی ریگزارِ گرم پر بیٹھ کر حوصلوں کی بلندیوں کی جانب سفر کر رہی تھی۔
ہجرت، معراج، اور عاشور کی شبیں اس شبِ غریباں کا طواف کر رہی تھیں۔ تینوں شبیں چوتھی شب کے عروج کو دادِ سخن دے رہی تھیں، کیونکہ اسی شب نے ہر شب کی آبرو کو قائم رکھا ہے۔ ان کے دامنِ فضیلت میں سمٹے ہوئے مناقب کی عظمت کا احساس کبھی گوشۂ احساس سے جدا نہیں ہوتا۔ اگر عقیلۂ بنی ہاشم اس شب میں انقلاب کی ہجرت کو معراج پر نہ پہنچاتی، تو مدینہ کی ہجرت معراج حسینی سے وابستہ نہ ہوتی۔
شبِ غریباں کی گزرتی ہوئی رات بقاءِ شریعت کی ترجمان ہے۔ اس شب کی خاموشی میں ہزاروں طوفانوں کی طغیانی اور ان گنت تکلمات کا جوہر بھی پنہاں ہے۔ یہ رات اپنے دامنِ دراز میں صبر کا سرمہ لگائے ہوئے ہے۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ ضبط کا کاجل چشمِ شب میں ظلمتوں کا پتہ دے رہا ہے، مگر عقیلۂ بنی ہاشم کے ارادوں کی صلابت چٹانوں سے بھی زیادہ مضبوط اور مستحکم نظر آتی ہے۔
یوں تو شہزادی اس شب میں فانوسِ حقیقت بن کر شمعِ امامت کی حفاظت میں تھی، مگر شعور کی شاہراہوں پر، ضمیروں کی عدالتوں میں انصاف کے دیپ روشن کر رہی تھی۔ کس میں دم ہے جو فکرِ زینب کے زائچہ کو کھینچ سکے؟ طائرِ تخیل پرواز سے عاجز نظر آتا ہے۔ صرف فکرِ معصوم ہی سرحدِ فکرِ شامِ غریباں کا ادراک کر سکتی ہے۔
شہزادیِ علیا مقام، تصویرِ استقامت میں تاثیرِ صبر کے پیمانے ناپ رہی ہے۔ تین شبانہ روز کے بھوکے پیاسے بچے، جن کے ماتھے پر داغِ یتیمی بھی لگ چکا ہے، دامن میں آگ کے شعلوں کی لپکوں کا احساس بھی کر رہے ہیں اور کروٹیں لے رہے ہیں۔ نفسِ مطمئنہ کی چھوڑی ہوئی میراث، اطمینان کی باریک ڈگر پر یقین کے ساتھ کھڑے ہیں، یتیمانِ آلِ رسول۔
ایک عہد نو لکھا جا رہا ہے۔ یزیدیت کے سپاہی جیت کے جشن میں شراب کے نشے میں مدہوش ہیں، انہیں کیا معلوم کہ عصمت کی میر کارواں، خیمے کی جلی ہوئی لکڑیوں کی راکھ پر، خاکِ شفا کی عظمت کو دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ تسبیحِ زہرا کے دانوں سے تقدیرِ شریعت کی الجھی ہوئی زلفوں کو سلجھا رہی ہے۔
بیواؤں، یتیموں، غریبوں، مظلوموں، بیکسوں کی تمام تر آس و اسرا اب زینبِ علیا مقام کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ جس طرح امامِ وقت کی غشی پر نظر جاتی ہے، تو لگتا ہے کہ ذریتِ ابراہیم اور نسلِ اسماعیل کی پاسبانی بھی اسی بی بی کے دستِ مقدس میں ہے، جس سے وہ ایک تاریخ لکھ رہی ہے۔ اس کے ہاتھوں میں قلم نہیں، مگر عباس کے قلم شدہ شانوں کی طاقت ہے۔ اس کے پاس سینۂ تاریخ کا کوئی صفحہ نہیں، مگر علی اکبر کے اس سینے کا حوصلہ ہے جس نے نیزے کی انی کو توڑ دیا تھا۔
تاریخ کے پراگندہ اوراق کو اب ایسے ہی سمیٹنا تھا جیسے غریب زہرا نے بکھرے ہوئے لاشوں کو جمع کیا تھا۔ اس بی بی کے حوصلوں کے حصار میں امامت کا انحصار ہے۔ کسی کے پاس وہ فکری سرمایہ نہیں جسے جمع کرکے وہ زینبِ علیا کی حکمتِ کاملہ کا ادراک بھی کر سکے۔
چشمِ فلک جھک جھک کر جسے سلام کرے، دشتِ ارضِ نینوا کی خاک کے ذرے اڑ اڑ کر جس کی قدم بوسی کرے، ریگستانوں کے بگولوں میں جھومتی ہوئی دائری کیفیت شہزادی کا طواف کر رہی تھی۔
ایک بی بی نا جانے اپنے کتنے ارمانوں کی چتا پر کھڑی ہو کر حسرتوں کے جنازے نکلتے دیکھ رہی تھی۔ آرزوؤں کے لاشے تڑپ رہے تھے، مگر قلبِ زینب کا اطمینان ارجعی الی ربک کی تفسیر حقیقت و مصداقیت کا لباس فاخرہ زیب تن کر رہا تھا۔فادخلی فی عبادی کی فاء فوریتِ جزائے حقیقت کی جانب عجلت و سرعت کا اشارہ کر رہی تھی۔
زینب، زینتِ پدرِ زمینِ کربلا پر بیٹھ کر ضمیرِ انسانیت کو جھٹکے دے رہی تھی۔ کون جانتا ہے کہ اس بھیانک شب کی خاموشی کو حرفِ تکلم زینب نے دیا۔
رنج و الم میں ڈوبی ہوئی شہزادی آنکھوں کو نم کرتی ہے، مگر صبر کا سرمہ بہنے نہیں دیتی۔ بھوک، پیاس نے بشریت کے تقاضے پورے کرنے میں چہرے پر اضمحلال تو طاری کیا ہے، مگر پیشانی کی وسعتوں میں جو حوصلوں کی شکن ہے، اُس نے ظلم و جور کے ہر بت کی بت شکنی کی ہے۔
توکلِ علی اللہ کی اگر منزلِ حقیقت دیکھنی ہے تو ذاتِ زینبِ عالی وقار کو دیکھو، جہاں صفاتِ جلال و جمالِ علوی کا عکس عیاں نظر آتا ہے۔ شجاعتِ حسنی کی امین، خطابتِ علوی کی رہینِ فراست، فاطمی کی ذہانت، صلحِ حسن کی جبین، تحفظِ امامت کی رکنِ رکین، ایک شب میں میرِ کارواںِ حسینی بھی ہے اور ہر ذہن و قلب میں آنے والی صبح کی امنگیں بھی ہیں۔
نمازِ شب کی گیارہ رکعتوں کے بعد، گیارہ محرم کی صبح صادق نویدِ یومِ زینبی لے کر آئی ہے، جس دن ایک نیا عہد، نیا دور، نیا زمانہ دستِ زینب کے ہاتھوں سنوارا اور نکھارا جائے گا۔ شریعتِ محمدی کی بقاء میں حسین ابنِ علی کی شہادت کی سرخی کو ریگزارِ کربلا سے نچوڑ کر شفق کے ماتھے پر سجانے کا دن ہے یومِ زینب۔
ربِ لوح و قلم اہلِ ولا کے پرسہ کو قبول فرمائے۔









آپ کا تبصرہ