جمعرات 10 اپریل 2025 - 14:40
شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کی حیات، آج کی نسل کے لیے مشعلِ راہ، مقررین

حوزہ/ مدرسہ بنت الہدیٰ ہریانہ میں شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کی یاد میں ایک روح پرور محفل کا انعقاد کیا گیا۔ علمی و دینی شخصیات، مبلغات اور طالبات نے بھرپور شرکت کر کے شہیدہ کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ پروگرام میں تقاریر، نظمیں، قرآنی و نہج البلاغہ مکالمے اور نماز جماعت سمیت کئی روحانی سرگرمیاں شامل رہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،کرنال-ہریانہ/ نجف اشرف عراق کی علمی فضاء میں پروان چڑھنے والی نابغۂ روزگار عالمہ، فاضلہ، مفکرہ اور مبلغہ شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کی یاد میں مدرسہ بنت الہدیٰ ضلع کرنال ہریانہ کے زیر اہتمام ایک پُروقار اور روح پرور محفل کا انعقاد 9 اپریل 2025 کو کیا گیا۔ اس یادگاری تقریب میں علمی و دینی شخصیات، مبلغات اور مدارس کی طالبات نے بھرپور شرکت کی اور شہیدہ کی علمی و فکری خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔

پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا، جس کی سعادت مدرسہ کی ہونہار طالبہ سیدہ ضویا بتول نے حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسہ حیدریہ سید چھپرہ کی طالبات، وجیھا بتول، درخشاں بتول اور حدیقہ نے نعتِ رسول مقبولؐ پیش کر کے قلوب کو معطر کیا۔ بعد ازاں مدرسہ کی طالبات نے توشیع پیش کی، جس نے حاضرین پر گہرا اثر چھوڑا۔ نظامت کے فرائض مدرسہ حیدریہ کی معلمہ خواہر اسما فضیلت نے انجام دیئے۔

شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کی حیات، آج کی نسل کے لیے مشعلِ راہ، مقررین

مدرسہ کی طالبات کسا بتول، شفا بتول اور جزا بتول کے ترانے "سلام فرماندہ" کے ذریعہ اس روحانی تقریب میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا۔ بعد ازاں سیدہ ضحیٰ بتول نے شہیدہ کے علمی و فکری کارناموں پر روشنی ڈالی، جس میں ان کی بے باک شخصیت اور دینی خدمات کا احاطہ کیا گیا۔ جس کے بعد طالبات کے گروہ نے سورہ والشمس کی تلاوت کا شاندار مظاہرہ کیا۔

بعد ازاں مدرسہ کی طالبہ سیدہ نیلم زہرا نے ایک پُرجوش انداز میں نذرانۂ عقیدت نظم کی صورت میں پیش کیا، جبکہ سیما فاطمہ نے شہیدہ کی حیات اور علمی و دینی جدوجہد پر سیر حاصل گفتگو کی۔ سیدہ تمنا فاطمہ و آفریدہ بتول نقوی نے ایک پُرسوز نظم کے ذریعے سامعین کے قلوب کو منور کیا، اس کے بعد راضیہ بتول نقوی نے بھی شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کی حیات و خدمات پر مدلل تقریر پیش کی، جس میں ان کے علمی کارناموں اور دینی جدوجہد کو اجاگر کیا گیا۔ بعد ازاں سیدہ وقار فاطمہ، سیدہ محکمہ بتول نے فارسی زبان میں ترانہ پیش کیا۔

اس کے بعد مہمان مبلغہ سیدہ شاہ نور صاحبہ نے شہیدہ کی علمی اور تبلیغی کوششوں کو بیان کرتے ہوئے ان کی زندگی کو موجودہ نسل کے لیے مشعلِ راہ قرار دیا۔ جس کے بعد سیدہ افزا بتول، سیدہ ثانیہ بتول نے شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کی شان میں پیش کی گئی منقبت نے روحانی کیف و سرور کو مزید گہرا کر دیا۔ اس کے فوراً بعد جامعتہ القرآن و عترت نانوتہ کی معلمہ سیدہ عابدہ بتول نے "شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ: ایک مثالی خاتون" کے عنوان پر مدلل گفتگو کی، جس میں ان کی حیات و خدمات کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا۔ بعد ازاں ساکشی دیوی ہریانوی نے شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کی یاد میں خراج تحسین کلمات ادا کرتے ہوئے اپنے خوبصورت اشعار کے ذریعے عقیدت کا اظہار کیا۔ جس کے بعد خواہر سیدہ علقمہ بتول نقوی صاحبہ نے اپنے بیان میں علم کی اہمیت اور شہیدہ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

مدرسہ بنت الہدیٰ کی معلمہ خواہر علی فاطمہ نقوی نے فارسی زبان میں مدرسہ کی خدمات و ضروریات پر روشنی ڈالتے ہوئے مہمان خصوصی خانم حصار صاحبہ اور خطیبہ خواہر سیدہ تسکین فاطمہ صاحبہ سمیت مقامی و بیرونی مبلغات و سامعین خواتین کے لیے تشکری کلمات ادا فرمائے۔

پروگرام کے ایک خاص حصے میں مدرسہ بنت الہدیٰ کی ہونہار طالبات نے حفظِ قرآن کریم کے حوالے سے ایک منفرد مکالمہ پیش کیا۔ سیدہ ضویا بتول، سیدہ مصباح بتول، سیدہ شمائلہ بتول اور سیدہ کریمہ بتول نے تیسویں، انتیسویں اور اٹھائیسویں پارے کا زبانی ترجمہ اور آیات کی تشریح پیش کر کے سامعین کو حیرت میں ڈال دیا۔ حاضرین کے لیے سب سے دلچسپ لمحہ وہ تھا جب طالبات کو کسی بھی آیت کا ترجمہ پڑھ کر دیا جاتا اور وہ نہ صرف آیت کو زبانی پیش کرتیں بلکہ اس کا سیاق و سباق، اس سورہ کی آیات کی تعداد، اس کے مکی یا مدنی ہونے کا تعین بھی کرتیں۔

اس کے علاوہ مدرسہ کی ہونہار طالبہ شفا بتول نے نہج البلاغہ کے 100 کلماتِ قصار مع ترجمہ یاد کر کے ایک منفرد اور پُرتاثیر مکالمہ پیش کیا، جس نے محفل کے وقار کو مزید بڑھا دیا۔ یاد رہے کہ مدرسہ بنت الہدیٰ میں چار طالبات حفظ قرآن کریم مع ترجمہ اور دو طالبات حفظ نہج البلاغہ میں مشغول ہیں۔

"حفظِ قرآن کریم اور حفظِ نہج البلاغہ کی پُر وقار مکالماتی نشست میں مہمانانِ گرامی، حافظہءِ کل قرآن کریم محترمہ خانم حصار کی صاحبہ اور ذاکرہءِ اہلبیت خواہر سیدہ تسکین فاطمہ صاحبہ نے طالبات کی محنت کو سراہتے ہوئے خصوصی انعامات سے نوازا، دعائیہ کلمات عطا کیے اور پُرخلوص انداز میں حوصلہ افزائی کی۔ ان کی دلنشین گفتگو نے تقریب کو روحانیت سے ہمکنار کیا اور طالبات کے دلوں میں علم و حفظ کی تڑپ کو مزید فروزاں کیا۔"

مہمانِ خصوصی حافظہ کل قرآن خانم حصار صاحبہ، جو قم المقدسہ سے تشریف لائی تھیں، نے فارسی زبان میں شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کی حیات پر خطاب کیا، جس کا ترجمہ مدیرہ جامعہ فاطمہ دہلی، عالمہ فاضلہ خواہر سیدہ تسکین فاطمہ صاحبہ نے کیا۔ آخر میں شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کے ایصالِ ثواب کے لیے مجلسِ عزا منعقد کی گئی، جس سے مدیرہ جامعہ فاطمہ دہلی، عالمہ فاضلہ سیدہ تسکین فاطمہ صاحبہ نے خطاب کیا۔ ان کے بیان میں شہیدہ کی سیرت و کردار کے ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی جنہیں اپنانا ہر فرد کے لیے ضروری ہے۔ اس پروگرام میں مقامی و بیرونی بیس مبلغات کی شرکت نے علمی و فکری وسعت کو مزید تقویت دی۔ اس محفل کو نہ صرف شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کی یاد کا ایک درخشندہ لمحہ قرار دیا گیا بلکہ ان کے افکار کو عملی زندگی میں اپنانے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا۔

شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کی حیات، آج کی نسل کے لیے مشعلِ راہ، مقررین

پروگرام کا باقاعدہ آغاز صبح 9 بجے ہوا، جس میں شرکت کرنے والے شرکاء کی آمد و رفت کا سلسلہ عقیدت و احترام کے ساتھ جاری رہا۔ مقررہ وقت پر مختلف سرگرمیاں اور خطابات کا آغاز ہوا، جو نہایت خوش اسلوبی سے جاری رہے۔

دوپہر 12 بج کر 30 منٹ پر نمازِ ظہرین کے لیے وقفہ کیا گیا۔ نماز جماعت کی سعادت معزز مہمان مبلغہ، خواہر سیدہ شاہ نور صاحبہ کی اقتداء میں ادا کی گئی، جس میں طالبات و خواتین نے خشوع و خضوع کے ساتھ شرکت کی۔

نماز اور مختصر وقفے کے بعد دوسری نشست کا آغاز ٹھیک 1 بجے دوپہر ہوا، جو سلسلہ وار تقاریر، نظمیں اور روحانی نکات کے ساتھ جاری رہی۔ یہ نشست سہ پہر 3 بجے اپنے اختتام کو پہنچی۔

اختتام پر تمام خواتین کے لیے ایک پُرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا گیا، جہاں علمی و دینی گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ برسی محض ایک یادگاری تقریب نہ تھی بلکہ فکری اور روحانی رہنمائی کا ایک روشن مینار ثابت ہوئی، جو آنے والی نسلوں کے لیے شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کے افکار و نظریات کو اپنانے کی ترغیب فراہم کرتی رہے گی۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha