ترجمہ و ترتیب: سید نجیب الحسن زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی| جب گھر میں سکون اور اطمینان کے کسی ایک لمحے کی بات آتی ہے، تو ہم فوراً انٹرنیٹ پر جا کر زندگی کی مہارتوں کے کچھ طریقے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ خوشگوار اور محبت بھری زندگی کا نسخہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کی سیرت میں آسانی سے دستیاب ہے جس پر ہماری توجہ نہیں۔
زندگی کی دوڑ میں سکون کیسے حاصل کریں؟
ہم اپنی زندگی میں اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کب صبح شام میں بدل گئی۔ ہم اپنے آپ کو اس طرح گھر پہنچاتے ہیں جیسے وہ ایک ایسی آرام گاہ ہو جو ہمارا انتظار کر رہی ہو، جہاں جلدی جلدی سب کام نمٹا کر تھکن سے چور ہو کر سونے کی تیاری کرتے ہیں تاکہ صبح جلدی اٹھ سکیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اپنے گھر میں خوشی اور تازگی کیسے لا سکتے ہیں؟ کیسے مختصر لمحات کا بہترین استعمال کر کے زندگی کو سرشار بنا سکتے ہیں؟
حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ولادت کے مبارک موقع پر، ہم نے ان کی سیرت کا جائزہ لیتے ہوئے انہیں نقوش حیات کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جن پر چل کر ہم اپنی زندگی کو پرسکون بنا سکتے ہیں اس سلسلے میں ہم نے خاندانی ماہرِ نفسیات اور یونیورسٹی کی پروفیسر، محترمہ مہدیہ لباف سے گفتگو کی، تاکہ وہ ہمیں حضرت فاطمہ زہرا (س) کی سیرت کے مطابق شوہر اور بیوی کے درمیان محبت بھرے تعلق کو مضبوط کرنے کے طریقے بتائیں۔
جب گھر کا سربراہ اپنی تھکن گھر کے دروازے پر ہی چھوڑ دیتا ہے:
امیر المؤمنین (ع) میدان جنگ کی سختیوں دنوں ہفتوں کام کی مشقت کے بعد جب گھر لوٹتے تو ان کے چہرے سے مسکراہٹ غائب نہ ہوتی۔ آپ ایسی شخصیت کے حامل تھے کہ مسکراتے ہوئے گھر میں داخل ہوتے اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کے ساتھ اپنی زندگی میں بے مثال محبت کا مظاہرہ کرتے تھے نیز اپنے گھر والوں کے ساتھ نہایت خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔
اب ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، کتنے گھرانوں میں ایسا ہوتا ہے؟
اور کتنی جگہ ایسا کہ جب گھر کا سربراہ، دن بھر کے کام کے بعد جب گھر واپس آتا ہے تو اپنی تھکن اور کام کا بوجھ گھر کے ماحول پر مسلط کر دیتا ہے اور توقع کرتا ہے کہ اس کی بیوی کھانے کا انتظام کر چکی ہو اور گھر مکمل سکون کا گہوارہ ہو۔
جبکہ اگر ہم حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کی زندگی پر غور کریں، تو جتنا ہم رسول اللہ (ص) کی زندگی کے آخری ایام کے قریب آتے ہیں، یہ واضح ہوتا ہے کہ معاشرتی دباؤ اور مختلف گروہوں کی جانب سے بڑھتے ہوئے مظالم کے باوجود، امیر المؤمنین (ع) اور حضرت فاطمہ زہرا (س) اپنی ان مشکلات کو کبھی گھر کے ماحول پر اثر انداز ہونے نہیں دیتے تھے۔
شریک حیات کا یوں استقبال کریں:
اس زمانے میں گھریلو کام کاج بہت زیادہ تھے۔ مثلاً روٹی تیار کرنے کے لیے پہلے گندم کو پتھر کی سل سے پیس کر آٹا بنایا جاتا، پھر تنور میں روٹی پکائی جاتی۔ ساتھ ہی بچوں کی دیکھ بھال اور دیگر گھریلو ذمہ داریاں بھی بہت وقت طلب تھیں۔ اس کے باوجود حضرت فاطمہ زہرا (س) اس بات کا خاص خیال رکھتی تھیں کہ خود دروازہ کھول کر حضرت علی (ع) کا استقبال کریں۔ وہ بہترین اور نہایت مودبانہ انداز میں سلام کرتے ہوئے فرماتیں: "السلام علیک یا ابا الحسن"۔
یہ احترام کا سب سے اعلیٰ اظہار تھا کیونکہ عرب تہذیب میں کسی کو کنیہ (لقب) سے مخاطب کرنا عزت دینے کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ جواب میں حضرت علی (ع) نہایت محبت بھری اور نرم آواز میں فرماتے: "علیک السلام یا بنت رسول اللہ"۔ اس جواب کے ذریعے حضرت علی (ع) حضرت فاطمہ زہرا (س) کے لیے فخر کا اظہار کرتے کہ وہ رسول اللہ (ص) کی بیٹی ہیں۔
یہ خوبصورت کلام اور مہربان رویہ، جسمانی تھکن کے باوجود، اس بات کا مظاہرہ ہے کہ اچھے اخلاق اور محبت بھرے انداز سے انسان کی تھکن اور دکھوں کو کم کیا جا سکتا ہے، اور دلوں کو سکون بخشا جا سکتا ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ایک خاص صفت:
حضرت فاطمہ زہرا (س) کی زندگی کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کبھی حضرت علی (ع) سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ اس معاملے میں آج کی خواتین کے لیے ایک بہت بڑا سبق ہے کیونکہ مطالبہ کرنا خواتین کے لیے شرعاً جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شوہر پر بیوی کی روزمرہ ضروریات پوری کرنا واجب قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی خاتون اپنے شوہر سے کہے کہ اسے کپڑوں کی ضرورت ہے، تو یہ خلافِ شرع نہیں ہے، کیونکہ شوہر پر نفقہ دینا واجب ہے یہ اس کی ذمہ داری ہے۔
لیکن حضرت زہرا (س) کی عادت یہ تھی کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات کے بارے میں بھی کبھی زبان سے اظہار نہیں کرتی تھیں۔ آپ اس بات سے فکر مند رہتی تھیں کہ کہیں حضرت علی (ع) کی توجہ اسلام کی خدمت میں پیش آنے بڑے والے مسائل میں بنٹ نہ جایے، یا کہیں ان پر ایسا بوجھ نہ ڈال دیں جسے پورا کرنا ان کے لیے مشکل ہو جائے۔
ایک واقعے میں حضرت علی (ع) نے حضرت فاطمہ (س) سے پوچھا: "کیا گھر میں کھانے کے لیے کچھ ہے؟" تو حضرت زہرا (س) نے جواب دیا: "نہیں، سب ختم ہو گیا ہے۔" یہ سن کر حضرت علی (ع) فوراً گھر کے لیے ضروری اشیاء کا انتظام کرنے نکل گئے۔
یہ رویہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کی محبت، قربانی، اور اپنے شوہر کے مشن کے ساتھ گہری وابستگی کی ایک روشن مثال ہے۔
گھر کو چین و سکون کا گہوارہ ایسے بنائیں:
حضرت فاطمہ زہرا (س) کی زندگی کے ایک اور پہلو میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ (س) محدود وسائل کے باوجود حضرت علی (ع) کی بہترین مہمان نوازی کرتی تھیں اور ان کے لیے سکون قلب کا ذریعہ تھیں۔ آج کی زندگی میں ہم اکثر یہ غلطی کرتے ہیں کہ سکون پیدا کرنے کو بہت پیچیدہ سمجھتے ہیں، جیسے گو کہ صرف صفائی یا اچھے کھانے پر منحصر ہے۔ لیکن حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی سیرت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ کبھی کبھی کچھ میٹھے بول خوشگوار لہجے میں گفتگو یا دل کو خوش کرنے والی بات چیت شوہر کو ایسا سکون دے سکتی ہے جو کہیں اور سے ممکن نہیں۔
حضرت زہرا (س) اور امیر المؤمنین (ع) کی قربت اور دوستی کا یہ عالم تھا کہ جب حضرت زہرا (س) شہید ہو گئیں تو حضرت علی (ع) نے ان کے جسد مبارک کے پاس کھڑے ہو کر ان سے گفتگو کی یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے درمیان گفت و شنید کا ماحول کتنا زندہ اور خوشگوار تھا۔
بدقسمتی سے، آج کے خاندانوں میں یہ پہلو اکثر مفقود ہے۔ شوہر اپنی ذمہ داری پوری کر رہا ہوتا ہے اور بیوی اپنی، لیکن ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے، مشورہ کرنے اور ایک دوسرے کو وقت دینے کا کلچر کم ہوتا جا رہا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ آج کی زندگی میں ہمیں سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی سیرت کو اپنی زندگیوں میں اپنائیں اور اپنے گھروں میں سکون اور محبت کو فروغ دیں۔
آپ کا تبصرہ