تحریر: مولانا محمد رضا ایلیاؔ مبارکپوری
حوزہ نیوز ایجنسی| امام علی رضا (ع) اپنے نوکروں کے ساتھ ایک مرتبہ جب درستر خوان بچھا جب امام علی رضا (ع) تشریف لائے۔ امام علی رضا(ع) کودیکھ کرسب کھڑے ہوگئے امام فرمایا بیٹھ جائیں آپ سب کھڑے کیوں ہوگئے ۔ پھرآپ نے سب کو بٹھایا ۔ آپ کے ساتھ تمام غلاموںعلاوہ ایک حبشی غلام بھی شامل تھا جوظاہری طور پر بہت زیادہ کالا،بدھی شکل والا، جسے لوگ دیکھ کر عجیب سی شکل بناتے تھے۔ایک شخص جس کا نام ’’بلخی ‘‘نےاس نے کہا مولاانہیں الگ بٹھائیں ۔ امام (ع)نے فرمایا کیوں؟ کیا بات ہے؟ اس بلخی آدمی نے کہامولااس کو الگ بٹھایاجاتا ہے ۔ آپ نے فرمایا سب کا رب ایک اور ماں باپ یعنی آدمؑ و حوؑ ابھی ایک ہیں اور جزا و سزا اعمال پر مو قوف ہے ۔ تو پھر تفرقہ کس بات ہے یہ بہتر اور ابتر کیا؟
امام علی رضا(ع) کے خادم یا سر کا کہنا ہے کہ آپ کا یہ تاکید ی حکم تھا کہ جب دسترخوان پر تم لوگ کھانا کھا رہے ہوتو یاد رکھنا میرے آنے پر کوئی خادم کھانے کھا نے کی حالت میں میری تعظیم کو نہ اٹھے ۔یاسر نے سوال کیا مولاایسا کیوں آپ نے فرمایا غذا یعنی کھا نے کا احترام کرنا چاہئے۔ جب بھی دسترخوان بچھتا تھاامام علی رضا(ع) ہر کھانے میں سے ایک حصہ نکال لیتے تھے اور اسے مسکینوں اور یتیموں کو بھیج دیا کرتے تھے ۔
دور حا ضر میںاکثر بے ضمیر افرادیا زبانی محبت کرنے والےکسی غریب کو اپنے پہلو میں بیٹھاناپسند نہیں کرتے ہیں اسے گری ہوئی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔،شادی ہوتی ہے تو کوئی غریب مانگنے آجاتا ہے تو ہم اسے ڈانٹ بھگا دیتے ہیں ۔ جہاں غریب بیٹھا ہو وہاں بیٹھنا پسند نہیں کرتے ۔ جس بستی میں غریب لوگ رہتے ہیں وہاں جانا پسند نہیں کرتے ۔ اگر کوئی ہمارے گھر میںکرایہ دار ہے تو اسے نیچا اور گرا ہوا سمجھتے ہیں ۔
ایک مر تبہ آپ حمام میں تھے ۔ ایک شخص آگیا اور اس نے بھی نہانا شروع کر دیا دوران غسل ا س نے امام علی رضا (ع) سے کہا میرے جسم پر پانی ڈالیں ۔ آپ نے پانی ڈالنا شروع کر دیا اتنے میں ایک شخص نے کہاکہ اے جندی فرزند رسولﷺ سے خدمت لے رہا ہے ۔ ارے یہ امام علی رضا(ع) ہیں ۔ یہ سننا تھا کہ وہ پیروں پر گر پڑا اور معافی مانگنے لگا۔
اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ اگر کوئی غریب ہم سے کسی خدمت کا سوال کرے تو خوشی سے ساتھ اس کی خدمت کرتے ہیں یا اسے تحقیر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہمیں امام علی رضا(ع) کے بتائے راستے پہ چل کر ہم غریبوں اور مسکینوں کومخلوق خدا کی نگاہوں سے دیکھنا چاہیے یہی ایک سچے عاشق امام کی پہچان ہے ۔
کھانےکی بربادی پر امام علی رضا(ع) کی نصیحت
امام علی رضا(ع) کے خادم’’یاسر‘‘ کا بیان ہے کہ ہم چند دوست ایک ساتھ بیٹھ کر میوہ اوردوسرے پھل کھا رہے تھے اور ہم سب کاکھانے کا طریقہ یہ تھا کہ ایک پھل سے کچھ کھاتے تھے اور کچھ پھینک دیتے تھے امام کا وہاں سے گزر ہوا امام علی رضا(ع) نے ہماری اس حرکت کودیکھ لیاہمیں ان کے لہجہ سے ایسا محسوس ہوا کہ آپ سخت ناراض ہیں آپ نے ہم تما م موجود لوگوں سے فرمایا ’’یہ اشیا خدا کی نعمت ہے ‘‘ اسے اس طرح بر باد نہ کرو ٹھیک سے کھاؤ اور جو بچ جائے کسی محتاج اور غریب کو دے دو۔
آج کے دور میں ہم پززہ ، برگر ، چائے ، چکن چللی ، ڈوسا ، الٹی آدھا کھا یا اور آدھا پھینک دیا سوال اپنے ضمیر سے کیجئے کیا امام کے ماننے والے ایسا کریں گے ۔
امام علی رضا(ع) اور شیر قالین
امام علی رضا(ع) کے زمانے میں ایک مرتبہ قحط پڑا مامون آپ کی خدمت میں آیا اور کہاںمولاکوئی طریقہ بتایئے ۔آپ مصلہ بچھا کر دعا کی بارش ہو گئی ۔جب لوگوں یہ بات عام ہو گئی کہ امام علی رضا(ع) نے دعا تب بارش ہوئی تویہ سن کر آپ کے دشمن جل بھن گئے، بادشاہ کے سامنے کہا یہ کون سا کمال ہے کہ دعا سے بارش ہوگئی کافی دنوں سے نہیں ہوئی وہ تو ہونا ہی تھا ۔ معجزہ تو یہ ہے یہ جو قالین اور مسند پر شیر کی تصویر بنی ہوئی ہے ۔ اسےامام کہیں کہ مجسم ہو جائے اوروہ مجسم ہوجائے اورمجھے چیرپھاڑ کھائے تب تو مزہ ہے اور میں اسے معجزہ تسلیم کروں گا ۔ امام علی رضا(ع) قالین کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا اس فاسق و فاجر کو چیرپھاڑکر اس طرح کھا جاؤ کہ اس کا نشان تک با قی نہ رہے ۔ شیر دھاڑتا ہوا نکلا ۔ اس منظر کو شاعر بیحد خوبصورتی سے پیش کرتاہے ۔’’ضیغم ڈکارتا ہوانکلا کچھار سے ‘‘جس کا نام حمید تھا اسے پہلے چیراپھر پھاڑا اور کھایا ،مامون بیہوش ہوگا پھر امام نے دوبارہ حکم دیا کہ اپنی اصل حالت پر جاؤ۔
حضرت رسول خدا (ص) امام رضا علیہ السلام میں مشابہت
محمد بن عیسیٰ بیان کرتا ہے کہ میں نے خواب میں رسول (ص) اپنے شہر کی اس مسجد میںدیکھا جہاں حاجی اتر تے تھے میں نے رسول اکرم (ص) کو سلام کیا انہوںنے سلام کا جواب دیا میں دیکھا کہ پیغمبر اسلام کے پاس طبق( ٹرے) دیکھاجس میں نہایت عمدہ قسم کی کھجور تھی ۔ میرے سلام و کلام کے بعد پیغمبر اسلام نے مجھے 18کھجور دیں۔جب میں خواب سے بیدار ہوا اور میں سمجھ گیا کہ صرف اٹھارہ برس زندہ رہوں گا۔ اسی خواب کے بعد حضرت امام رضا علیہ السلام اسی مسجد میں تشریف لائے ۔ جہاں رسول (ص) بیٹھے تھے اسی جگہ پر آپ بیٹھے میں نے سلام کیا سلام کو جواب اسی انداز میں دیاجس طرح رسول خدا (ص) نے دیا تھا سلام کے بعد امام علی رضاؑ نے مجھے کچھ کھجور دیں ۔ میں نے اسے گنا تو وہ بھی اٹھا رہ تھی ۔ میں نے کہاکہ مولاکچھ زیادہ کر دیجئے امام مسکرائے اور کہاکہ اگر رسول (ص) تم کو خواب میں اس سے زیا دہ دیتے تو میں بھی زیادہ کر دیتا ہے ۔ (نور الابصار ص 441، )
امام علی رضا(ع)کا مجلس حسین ؑبرپا کرنے کا طریقہ :
امام علی رضا(ع) کا دستور تھا کہ جب بھی آپ مجلس بر پا کرتے تھے تو لو گوں کا مجلس حضرت امام حسینؑمیں آنے کا انتظار کرتے تھے ۔ جو بھی عزادار آتا تھا اسے اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے کسی نے بھی ایسا نہیں دیکھا کہ آپ اپنا خاص یا غیر سمجھ کے کسی اور جگہ پر بٹھایا کرتے تھے ۔ جب محرم کا چاند نکلا امام کی آنکھوں سے اشک جا ری ہو گئے ۔ دوسروں کو بھی ترغیب وتربیت دیتے تھے اور خود بھی اس پر عمل کرتے تھے ۔ اور فرماتے تھے کہ ’’جس کا دل مر دہ ہو جائے اور وہ یہ سو چے کہ دل کیسے زندہ ہو گا اسے چاہئے کہ وہ امام حسینؑ کی مجلس بر پا کرے ۔
دعبل خزاعی
دعبل خزاعی کے بے شما ر اشعار ہیں جو محمد و آل محمد (ص) کی شان کہے ہیں ۔ ایک مرتبہ دعبل حضرت کی خدمت حا ضر ہوئے اور کہا مولامیں آپ کی تعریف میں 120 اشعا ر پر مشتمل ایک قصیدہ کہا ہے ۔ میری دلی تمنا ہے کہ اسے سب سے پہلے آپ کو سناؤں حضرت نے فرمایا سناؤدعبل نے سنایا ۔جب وہ قصیدہ پڑھا چکے تو امامؑ ایک سو اشرفی کی تھیلی انہیں دی ۔
اگر کوئی امام کے فضائل پڑھے اور پیسہ یا اشرفی دے تو یہ امام کی سنت ہے اسے بطور تبرک لینا چاہئے ۔
تب دعبل نے شکریہ ادا کرنے کے بعد اس اشرفی کی تھیلی واپس کرتے ہوئے کہاکہ مولامیں یہ قصیدہ قربۃً الی اللہ پڑھا ہے مجھے کوئی اشرفی کی ضرورت نہیں ہے ۔ خدا نے مجھے سب کچھ دے رکھا ہے ۔ اگر کوئی چیز دینا چاہتے ہیں تو مجھے اپنے جسم سے اترے ہوئے کپڑے دے یجئے وہ میرے لیے تبرک ہوگا اور باعث فکر ہوگا۔ وہی میری دلی تمنا ہے ۔ اب سمجھ میں آیا کہ جو در اہل بیتؑ سے وابستہ ہوتا ہے اسے پیسہ کی نہیں تبرک کی ضرورت ہے ۔مولا نے اپنا ایک جبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس رقم کو بھی لے لو ۔ یہ تمہارے کام آئے گی ۔ دعبل نے اسے لے لیا ۔
دعبل تھوڑے دن کے بعد مَرو سے عراق جانے والے قافلہ کے ساتھ روانہ ہوئے راستہ میں ڈاکوؤںنے حملہ کرکے سارا مال لوٹ لیا اور مال تقسیم کرتے وقت دعبل ہی کا شعر پڑھا ۔ دعبل نے پوچھا یہ کس کا شعر ہے ۔ ان ڈاکوؤں نے کہا کسی کا ہوگا ہم سے کیا مطلب ؟؟ دعبل نے کہا یہ میرا شعر ہے ۔ اس کے بعد انہوںنے باقی ساراقصیدہ سنا یا ان ڈاکوؤںنے اس شعر کی وسیلہ سے سب کو چھو ڑ دیا اور سب کا مال واپس کر دیا ۔ اللہ اکبر جو امام کا محب ہوتا ہے دنیا اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے ۔ بلکہ وہ خود آفت و پریشانی سے بچانے کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔اب ہم سے یہ کہوپوچھو یہ ہم قبر میں خاک شفا اور کربلا کا کفن کیوںلیکر جا تے ہیں جب دعبل کو امام کا لباس بچا سکتا ہے تو کیا خاک شفا اور کربلا کا کفن ہماری شفاعت نہیں کرا سکتا ہے ۔اگر ہم حقیقی امام کے چاہنے والے ہیں تو اپنے ساتھ کئی لوگوں بخشوا سکتے ہیں ۔
واقعہ سن کر امام رضاؑ کا دیا ہوا یونیفارم خریدنا چاہا دعبل نے کہاکہ یہ میرے لیے تبرک ہے اس کی تم کیا قیمت دوگے یہ تمہارے بس کا نہیں نہ تمہارے پاس اتنی قیمت ہے کہ تم اسے خرید سکوں ۔ لیکن انہوں نے زبردستی کی اورایک ہزار دینار قیمت بھی لگا دی ۔ تب وہ راضی ہوئے تو ان کو گرفتار کر لیا ۔ آخر کار انہوں نے ایک ہزار اشرفی پر فروخت کر دیا ۔
واہ رے مولاکی محبت کتنی عظیم چیز کا نام اشعار نے لوگوں کی جان بچائی ، سب کا پیسہ واپس ملا ، اشرفی ملا، جبہ ملا اس کے بدلے بہت ساری رقم ملی ۔
دعبل نے جب امام رضاؑ کے سامنے قصیدہ پڑھا تو آپ بہت روئے اور آپ نے شعر کے بارے میں فرمایا اے دعبل یہ شعر تمہارے نہیں یہ الہامی ہے ۔ یہ تمام شعرائے اہلبیتؑ کو سمجھنا چاہئے جو بھی شعر کہتے ہیں اگر واقعاًبہت اچھا ہو جاتا ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ یہ اہلبیتؑ کی طرف سے عطا کر دہ ہے ان کی عنایت و کرم و نو از ش جس کا ہمیں تاحیات شکرگزار ہونا چاہئے ۔
ہندوستانی کوامام علی رضا (ع) کاعربی زبان عطا کرنا
ابو اسماعیل ہندی کہتا ہے: میں نے ہندوستان میں سنا تھا کہ زمین پر خدا کی حجت ضرور ہوتی ہے۔ یہ معلوم کرنے کے لئے گھر سے چلا۔ جب مدینہ پہنچا تو امام علی رضا(ع)کی طرف راہنمائی کی گئی۔ جب میں ان کی خدمت میں پہنچا تو چونکہ مجھے عربی زبان نہیں آتی تھی۔ میں نے ہندی زبان میں سلام عرض کیا: امام علی رضا (ع)نے ہندی زبان میںہی سلام کا جواب دیا:اس کے بعد میں نے عرض کیا: ہندوستان میں سنا تھا کہ زمین پر خدا کی حجت ہے جوعربستان کے لوگوں میں سے ہے۔
لہذا مجھے آپ کی طرف بھیجا گیا ہے۔ امام نے ہندی زبان میں کہا: وہ میں ہی ہوں جس کی تلاش میں تم نکلے ہو۔
جو بھی سوال پوچھنا چاہتے ہو مجھ سے پوچھو ؟ اس نے سوالات کیے جس کا امام نے جواب دیا ۔ آخر میں وہاں سے روانگی کے وقت اس نے عرض کیا: مجھے عربی زبان نہیں آتی ہے، آپ خدا سے دعا کریں کہ پروردگار عالم یہ زبان مجھے الہام فرمائے ، تاکہ لوگوں کے ساتھ عربی زبان میں گفتگو کر سکوں۔ آپ نے اپنا دست مبارک میرے ہونٹوں پر ملا اسی وقت مجھ میں یہ قدرت پیدا ہو گئی تھی کہ میں لوگوں سے عربی زبان میں بات چیت کر سکتا تھا۔
حضرت علی رضا (ع) کا تشیع جنازہ میں
موسیٰ بن سیار کہتا ہے: میں حضرت علی رضا (ع) کے ہمراہ تھا۔ جب ہم شہر توس کی دیواروں کے قریب پہنچے تو گریہ وفریاد کی آواز میں سنائی دیں۔ میں اس جستجو میں لگ گیا کہ یہ گریہ وزاری کہاں ہو رہی ہے، اچانک دیکھتا ہوں کہ ایک جنازہ لایا جا رہا ہے۔ مولاعلی رضا (ع) بھی گھوڑے سے نیچے اترے اور جنازہ کی طرف آئے ، اسے کاندھا دیا۔ اس کے ساتھ اس طرح سے چمٹ گئے جیسے بچہ اپنی ماں کے ساتھ چمٹ جاتا ہے۔ میری طرف رخ انور کر کے فرماتےہیں:
’’کوئی بھی ہمارے دوستوں کے جنازے کی تشیع کرتا ہے وہ گناہوں سے اس طرح صاف ہو جاتا ہے جیسے ابھی پیدا ہوا ہو اس کا کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔‘‘
آخر کار جنازہ قبر میں اتارا گیا۔ حضرت علی رضا (ع)نے لوگوں کو ایک طرف کیا تا کہ جنازہ کو دیکھ سکیں۔ اپنا ہاتھ میت کے سینہ پر رکھا اور فرمایا: اے فلاں! تجھے بشارت دیتا ہوں کہ آج کے بعد تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔میں نے عرض کیا: آپ پر قربان جاؤں۔ کیا اس شخص کو پہچانتے ہو؟ حالانکہ یہ ایسی سرزمین ہے جہاں پر آپ تشریف نہیں لائے۔آپ نے فرمایا: موسیٰ! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ہمارے شیعوں کے اعمال ہر صبح وشام ہمارے سامنے لائے جاتے ہیں۔ حوالہ:سیرت امام علی رضا (ع) ، ص178