۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
حجت الاسلام جعفری

حوزه/ عشرۂ کرامت کی مناسبت سے منعقدہ محفل سے خطاب کرتے ہوئے مجمع جہانی اہل بیت (ع) کے رکن اور تاریخ کے ماہر نے کہا کہ امام رضا ع نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے سیاسی حالات سے آگاہ رہیں اور بصیرت کے ساتھ مسائل پر توجہ دیں۔

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ماہر تاریخ حجۃ الاسلام عباس جعفری نے عشرۂ کرامت کی مناسبت سے گفتگو میں امام رضا علیہ السّلام کی سیرت طیبہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ صاحب کرامت انسان اپنی رفتار وکردار کی جانب متوجہ رہتا ہے اور دوسروں کے ساتھ تعلقات میں ہمیشہ احتیاط کرتے ہیں تاکہ ان کی عزت محفوظ رہے۔ خدا کے نیک بندے یعنی ائمہ اطہار اور انبیائے الٰہی علیہم السّلام اس خصلت کے اعلیٰ درجات پر فائز ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لغت میں کرامت بزرگواری اور سخاوت کے معنی میں آیا ہے اور خدا نے یہ صلاحیت انسان کے اندر رکھی ہے اور فرمایا"ولقد کرمنا بنی آدم"یعنی ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی۔ انسان کریم وہ باعظمت انسان ہے جو اپنی رفتار و کردار کے ذریعے سب پر اثرانداز ہوتا ہے اور یہ مفہوم تقویٰ کے ساتھ جڑا ہوا ہے، یعنی کرامت کا مقدمہ تقویٰ ہے۔ خدا فرماتا ہے:"ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم".

حجت الاسلام جعفری نے مزید کہا کہ باکرامت انسان دوسروں کے ساتھ ہمیشہ احترام کے ساتھ پیش آتا ہے اور جاہلانہ رفتار سے دور رہتا ہے۔ مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ صاحب کرامت انسان ایسی خصوصیات کا حامل ہے جس کے ذریعے وہ اہم امور کو انجام دیتا ہے اور ہر قسم کی لاپروائی سے دور رہتا ہے کیونکہ لاپرواہی تقوی اور کرامت کے منافی عمل ہے۔

صاحب کرامت انسان اپنی رفتار وکردار کی جانب متوجہ رہتا ہے اور دوسروں کے ساتھ تعلقات میں ہمیشہ احتیاط کرتے ہیں تاکہ ان کی عزت محفوظ رہے۔ خدا کے نیک بندے یعنی آئمہ اطہار اور انبیائے الٰہی علیہم السّلام اس خصلت کے اعلی درجات پر فائز ہیں۔

محقق تاریخ نے امام رضا علیہ السّلام کے دوسروں کے ساتھ کریمانہ سلوک کے حوالے سے کہا کہ امام کے دوسروں کے ساتھ تعلقات احترام پر مبنی تھے اس لحاظ سے جب ہم امام کے طرز زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو امام کی رفتار میں ایک نیا جلوہ نظر آتا ہے۔ منقول ہے کہ امام کے اپنے اصحاب کے ساتھ نشست و برخاست میں کبھی بھی نہیں دیکھا گیا کہ آپ نے آب دھان صاف کیا ہو اور دوسروں کو بھی اس سے منع کرتے تھے، یہ ناپسندیدہ عمل اس وقت معمول تھا کبھی یہ دیکھا جاتا کہ ایک فرد اپنے اردگرد کے افراد سے لاپرواہ ہوکر آب دھان کو صاف کرتا ہے یہ کام انسان کی عزت دوسروں کے سامنے کمزور ہونے کا سبب بنتا ہے اور دوسروں کے سامنے اس کی عزت مجروح ہوتی ہے۔

حجۃ الاسلام جعفری نے کہا کہ امام رضا کبھی بھی خوشی کا اظہار قہقہہ کے ذریعے نہیں کرتے، اس کا یہ معنی نہیں کہ آپ خوشی سے منع کرتے ہیں۔کیونکہ انسان کے احساسات خوشی وغم کے ساتھ ملے ہوئے ہیں کبھی قہقہہ اور آواز کے ساتھ ہنسنا ممکن ہے انسان کی منزلت میں کمی یا اس کے مقام کرامت کمزور ہونے کا سبب بنے۔ امام کے اطراف آپ کو ایسے شخص کے طور پر پہچانتے جس کے چہرے پر مسکراہٹ ہے یا امام کبھی بھی بلند آواز میں گفتگو نہیں کرتے تھے۔

انہوں امام رضا کے لباس پہننے کے طرز کے حوالے سے کہا کہ امام رضا لوگوں کے سامنے پاک و صاف لباس پہنتے، بعض لوگ لباس کی جانب توجہ نہیں دیتے۔ بہترین لباس، دیگر مومنین کی محبت کو جلب کرنے کا سبب بنتا ہے۔ بہترین لباس کا معنی خود نمائی نہیں جو کہ حرام ہے، بلکہ لباس سادہ ہونے کے ساتھ بہترین لباس ہوسکتا ہے، ساتھ ہی اپنے گھر میں بھی امیروں والی زندگی نہیں تھی۔ آپ خوش بو استعمال کرتے تھے۔

مجمع جہانی اہل بیت کے عہدیدار نے امام رضا (ع) کا اپنے خادموں کے ساتھ رویہ کے بارے میں کہا کہ امام اپنے غلاموں، کنیزوں اور خدمت گاروں کے ساتھ احترام سے پیش آتے تھے اور ان سے بلند آواز میں بات نہیں کرتے۔ امام کے خادم یاسر آپ کے اخلاق کے حوالے سے کہتا ہے: جب بھی امام کاموں سے فارغ ہوتے تو اپنے گھر والوں کو جمع کرتے، ان سے بات چیت کرتے اور ان سے محبت کا اظہار کرتے اور جب بھی دسترخوان پر حاضر ہوتے، چھوٹے، بڑھے حتیٰ خدمت گاروں کو بھی بلا لیتے تھے۔ یعنی امام کی تمام رفتار دوسروں کے ساتھ محترمانہ تھی۔

حجۃ الاسلام جعفری نے مزید کہا کہ امام دوسروں کے مقابل متواضع اور منکسر المزاج تھے۔ ایک دن کسی شخص نے (جو امام کو نہیں پہچانتا تھا )حمام میں امام سے کہا کہ وہ اس کے بدن کو صاف کرے۔امام نے قبول کیا اور آپ نے یہ عمل شروع کیا۔ دوسرے افراد نے امام کا تعارف کرایا تو وہ شخص شرمندگی کے ساتھ امام سے معافی طلب کرنے لگا۔ امام نے اس کی عزت افزائی کی جانب توجہ دئیے بغیر اپنے کام کو جاری رکھا اور اس کی دلداری کی گویا کچھ بھی نہیں ہوا ہو۔

انہوں نے امام رضا علیہ السّلام کے اجتماعی وسیاسی کردار کے حوالے سے کہا کہ امام مسلمانوں اور شیعوں کو اسلام کی بنیادوں سے آشنا کرنے کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں مختلف مناظرے بھی کرتے تھے۔ سیاسی واجتماعی مسائل سے لاتعلق نہیں رہے۔ جو بھی کام اس کی بنیادوں کے استحکام کا باعث بنتے وہاں کردار ادا کرتے۔ شاید ظاہراً بعض پیروکار تصور کرتے کہ امام نے مختلف اسباب جیسے خوف کی وجہ عباسی حکومت سے مفاہمت کی، لیکن ہم امام کی سیاسی بصیرت اور آئندہ نگری کو ابھی دیکھتے ہیں کہ مشہد مکتب تشیع کا اہم ترین مرکز ہے، اس بنا پر امام نے ہمیں سکھایا کہ ہم اپنے اردگرد کے مسائل سے لاتعلق نہیں رہیں اور بصیرت کے ساتھ مسائل میں وارد ہوں، اپنی سرنوشت، مستقبل پر توجہ دیں اور ہر قسم کی گروہی وابستگی سے بالاتر ہوکر اسلامی نظام کے استحکام کو اپنا شرعی فریضہ سمجھیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .