۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
News ID: 361170
28 جون 2020 - 21:20
غافر رضوی

حوزه/اس عشرہ کو کرامت کا نام دینے کا سبب یہ ہے کہ پہلی ذیقعدہ میں کریمۂ اہلبیت حضرت معصومۂ قم سلام اللہ علیہا کی ولادت ہوئی اور گیارہ ذیقعدہ میں کریم ابن کریم، امام رؤف، امام ضامن حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہے۔

تحریر: مولانا سید غافر رضوی چھولسی،دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی | اسلامی جمہوریہ ایران میں پہلی ذیقعدہ سے گیارہ ذیقعدہ تک کے وقفہ کو دہہ کرامت یعنی عشرۂ کرامت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اس عشرہ کو کرامت کا نام دینے کا سبب یہ ہے کہ پہلی ذیقعدہ میں کریمۂ اہلبیت حضرت معصومۂ قم سلام اللہ علیہا کی ولادت ہوئی اور گیارہ ذیقعدہ میں کریم ابن کریم، امام رؤف، امام ضامن حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہے۔

معصومۂ قم سلام اللہ علیہا اور امام علی رضا علیہ السلام حقیقی بہن بھائی تھے، آپ دونوں باب الحوائج امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی اولاد میں تھے۔ جناب فاطمہ معصومہ کا روضۂ منورہ ایران کے پاک و پاکیزہ شہر قم المقدسہ میں واقع ہے اسی لئے ان کو معصومۂ قم کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ امام علی رضا علیہ السلام کا روضہ خراسان کے شہر مشہد مقدس میں واقع ہے۔

بھائی بہن دونوں کے روضے چشم عالم کو خیرہ کئے ہوئے ہیں کیونکہ چشم عالم نے ان جیسا باکرامت کریم اور سخی تاریخ کے اوراق میں آج تک نہیں دیکھا۔

امام علی رضا علیہ السلام کا مبارک دسترخوان، کریم اہلبیت امام حسن علیہ السلام کے دسترخوان کا عکاس ہے. دنیا بھر کے زائرین آتے ہیں، اس دسترخوان سے مستفیض ہوتے ہیں اور اپنے بیماروں کے لئے اس غذا کے ذرّوں میں شفا تلاش کرتے ہیں اور ان کی تلاش لاحاصل نہیں رہتی بلکہ ان کی عقیدت کو منزل یقین حاصل ہوجاتی ہے۔

۱۱ ذیقعدہ سنہ ۱۴۸ ہجری وہ مبارک تاریخ تھی جو اپنے دامن میں دونوں جہان کی خوشیاں سمیٹ کر لائی تھی، اسی روز امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے صحن مبارک میں فرشتوں کی قطاریں نظر آئیں۔

یہ کون سا نظارہ ہے جس کے لئے عرش سے کہکشاں بھی اتر آئی! کہیں ایسا تو نہیں کہ آج صحن موسی کاظم میں جنت اتر آئی ہو؟ کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ یہی لوگ تو جنت کے مالک ہیں، جنت انہی کی تو جاگیر ہے، یہ جہاں بھی رہیں وہیں جنت ہے۔

یہ مدینہ میں چارسو خوشی کے مناظر کیسے ہیں؟ ارے بھائی! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آج امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے گھر میں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جس کا نام علی رکھا گیا ہے اور لقب رضا ہے۔ یہ علیؑ کی طرح دنیا میں سب سے بلند رہے گا اور علی کی طرح رضایت الٰہی اس کے ہاتھوں میں ہوگی۔
اب تعجب والی کون سی بات ہے جو بھی ان کے در پر آرہا ہے وہ اپنی قسمت سنوارنے کو آرہا ہے۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بیت الشرف میں پہلی ذیقعدہ سنہ ۱۷۳ ہجری میں ایک بچی پیدا ہوئی جس کا نام امام نے فاطمہ رکھا کیونکہ اہلبیت کے گھرانہ میں بلکہ خواتین عالم میں سب سے اعلیٰ و افضل فاطمہ زہرا ہیں، فاطمہ کے نام سے زیادہ معتبر کوئی اور نام نہیں۔

روایات کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اس بچی کے بھائی یعنی امام رضا علیہ السلام نے اس بچی کو معصومہ کے لقب سے یاد کیا اسی لئے ان کا نام فاطمہ معصومہ ہوگیا اور چونکہ قم المقدسہ میں دفن ہوئیں اس لئے ان کو معصومۂ قم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اگر امام رضا علیہ السلام اور معصومۂ قم کی ولادت کے سال دیکھے جائیں تو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ امام رضا علیہ السلام جناب معصومہ سے تقریباً ۲۵ /سال بڑے تھے۔

جس طرح امام حسین علیہ السلام اور جناب زینب سلام اللہ علیہا کے درمیان بھائی بہن کی محبت معروف ہے اسی طرح ان بھائی بہن کی محبت بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔
در حقیقت اسی خاندان نے ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ بہن بھائی کے درمیان کیسی محبت ہوتی ہے۔ اسی محبت کے تناظر میں عاشقان اہلبیت نے بہن بھائی کی ولادت کے درمیانی وقفہ کو دہہ کرامت یعنی عشرۂ کرامت کا نام دیا ہے۔

پہلی ذیقعدہ سے گیارہ ذیقعدہ تک قم المقدسہ اور مشہد مقدس میں دیکھنے کا منظر ہوتا ہے۔ ہر سو خوشیاں ہی خوشیاں بکھری ہوئی نظر آتی ہیں۔ زیادہ تر خوشی کی تقریبات انہی ایام میں دیکھنے کو ملتی ہیں اور جگہ جگہ محافل کا انعقاد اہلبیت علیہم السلام سے عقیدت کا اظہار کرتا ہے۔

جب اس عشرہ کو عشرۂ کرامت کہا جاتا ہے تو پھر ہم اس موقع سے فائدہ کیوں نہ اٹھائیں! پہلی تاریخ کو کریمہ کی ولادت اور گیارہ تاریخ کو کریم کی ولادت۔

جب ہم کرم کے احاطہ میں آ ہی گئے ہیں تو کیوں نہ ان کریموں کا واسطہ دے کر ربّ کریم سے دعا کریں کہ اے ربّ کریم! کریمۂ اہلبیت اور امام کریم کے صدقہ میں ہم پر کرم فرما اور ہمیں تمام پریشانیوں سے نجات دے، بالخصوص عالمگیر وبا "کرونا وائرس" سے محفوظ رکھ اور ہماری عاقبت بخیر فرما۔

یہ وہ ہستیاں ہیں جن کے صدقہ میں کی ہوئی التجا ضرور پوری ہوتی ہے، اگر پوری نہیں ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہماری دعا میں اخلاص کا فقدان ہے اور اگر دعا قبول ہونے میں تاخیر ہورہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی دعا قبول ہونے کا وقت نہیں آیا جب وقت آئے گا تو ضرور قبول ہوگی۔

؎ در سے زہرا کے بِنا مانگے ہمیں ملتا ہے

 گر تجھے ملتا نہیں، اپنے عقیدہ کو سنوار۔ (فلکؔ چھولسی)

جن ہستیوں کی زیارت کی قبولیت کے لئے بھی معرفت شرط ہے تو پھر ان کے وسیلے سے مانگی ہوئی دعاؤں میں معرفت کے فقدان کا کیا مطلب ہے؟ ہمیں ان ہستیوں کی معرفت حاصل کرنی چاہیئے تاکہ ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔

ہم جتنا زیادہ بحر معرفت میں غوطہ زن ہوں گے اس قدر جواہر معرفت حاصل ہوں گے لیکن اس کام کے لئے تیراکی میں مہارت شرط ہے۔

جب ہم ماہر تیراک ہوجائیں گے تو بالیقین بحر مودت سے انمول موتی حاصل کریں گے اور ہماری دعائیں باب اجابت سے ضرور ٹکرائیں گی۔

"والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ"

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .