۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ/ پہلی ذیقعدہ سے لیکر ۱۱ ذی قعدہ تک کے اس عشرہ کو عشرہ کرامت کہا جاتا ہے جس کی ابتداء بی بی معصومہ سلام اللہ علیہا کی ولادت سے ہو تی ہے اور ۱۱ ذی قعدہ کو امام رضا علیہ السلام کی ولادت پر اسکا اختتام ہوتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | پہلی ذیقعدہ سے لیکر ۱۱ ذی قعدہ تک کے اس عشرہ کو عشرہ کرامت کہا جاتا ہے جس کی ابتداء بی بی معصومہ سلام اللہ علیہا کی ولادت سے ہو تی ہے اور ۱۱ ذی قعدہ کو امام رضا علیہ السلام کی ولادت پر اسکا اختتام ہوتا ہے ، اسے عشرہ کرامت کا نام دینے کے پیچھے بھی یہی بات ہے کہ کریمہ اہلبیت اطہار علیھم السلام بی بی معصومہ سلام اللہ علیہا کی ولادت جہاں ایک ذی قعدہ کو مشہور ہے اور علماء نے اس تاریخ کو بی بی کی ولادت کے جشن سے مخصوص کیا ہے وہیں تاریخ کہتی ہے ۱۱ ذی قعدہ کو امام رضا علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہے بہن کی ولادت سے بھائی کی ولادت کے یہ ایام ہم سب کے لئے اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ ان میں ہم اپنے آپ کو پستیوں سے نکال سکتے ہیں کیوں کہ کرامت کے معنی ہی پستیوں سے دوری کے ہیں ۔

اگر ہم مفہوم کرامت پر غور کریں تو ہمیں ملے گا کہ کرامت انسان کی ایسی خصوصیت ہے، جو انسان کی ایک والا قدر اور اس کے عظیم شرف کی ترجمان ہے، کرامت ہی کی بنیاد پر انسان ذاتا دوسری مخلوقات پر فضیلت رکھتا ہے، تمام ادیان و مکاتب فکر نے الگ الگ انداز سے انسان کی ذاتی کرامت کی تشریح کی ہے اور اسے عطائے رب جانتے ہوئے کرامت کو محفوظ رکھنے اور اس کے پھلنے پھولنے کے اصولوں کو بیان کیا ہے، یہاں تک کہ انسانی حقوق کے سلسلہ سے قائم مطالعات کی جدید دنیا میں (Human digneity) کے نام سے انسان کے موضوع پر ایک نئے مطالعہ کا باب تک کھل گیا ہے، حتٰی یہ وہ موضوع ہے جس پر شاعروں اور فلاسفہ نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے اس پر خاص توجہ دی ہے، اور ہمارے آئمہ طاہرین علیھم السلام خاص کر امام رضا علیہ السلام کی زندگی میں جا بجا انسانی کرامت کے بارز نمونے نظر آتے ہیں، ان نمونوں کو بیان کرنے سے قبل ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کرامت کہتے کس کو ہیں اور اسکا مفہوم کیا ہے جب ہم نے مفہوم کرامت کو ڈھونڈا تو ملا کہ لفظ کرامت "کرم" سے ہے اور لغت میں اسکے مختلف معانی بیان ہوئے ہیں کہیں یہ "بخشش و عطا" کے معنی میں ہے اور کہیں کسی کی "ارجمندی و بزرگی" کو بیان کرتا ہے کہیں "جلالت و شان" کو ابن منظور نے اسکے معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کریم ایک ایسا اسم ہے جو اس ذات کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کے اندر تمام سراہے جانے والے صفات موجود ہوں گو تمام تر صفات حمیدہ کے حامل کو کریم کہتے ہیں۔

راغب اصفہانی نے کہا ہے کہ جب یہ خدا سے متصف ہو تو بخشش و عطا کے معنی میں ہوگا۔ جب انسان کے لئے استعمال ہو تو اچھے اخلاق و کرادر کے طور پر اسکے معنی بیان ہوں گے، انہیں معنی کے پیش نظر علماء نے کرامت کے معنی کو ایسی صفت جس سے عقلاء راضی و خوشنود ہوں، نیز پستیوں کی ضد، بلندی کردار، پاکیزگی روح اور گوہر جان کے طور پر بھی بیان کیا ہے۔ کرامت کے مفہوم کی وضاحت کے بعد یہ بات اب روشن ہو گئی کہ جو صاحب کرم ہوتا ہے وہ پست نہیں ہوتا جو کریم ہوتا ہے وہ بلندی کردار کا حامل ہے ۔

اب اس عشرہ کرامت میں ہماری ایک ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ خود کو پستیوں سے دور کریں ان چیزوں سے خود کو بچائیں جو ہماری ذلت کا سبب ہیں ،ان چیزوں کا اپنے وجود کا حصہ بنائیں جو کردار کی بلندی کا باعث ہوں یوں تو تما م محاسن اخلاق ہی انسان کی زینت کا سبب ہونے کے ساتھ اس کے کردار کی بلندی کا سبب ہیں لیکن ایک اہم چیز جو انسان کو دنیا و آخرت میں بلند کرتی ہے وہ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا اور رشتوں کو نبھانا ہے آج بھی معاشرے میں اگر کوئی شخص اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھتا ہے اور رشتوں کو نبھانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے مستحسن نظروں سے دیکھا جاتا ہے کہ فلاں صاحب بہت ملنسار ہیں اپنوں سے ہنس بول کر ملتے ہیں مسکراتے رہتے ہیں سب کے یہاں ان کا آنا جانا رہتا ہے ، کسی بات کو پکڑ کر نہیں بیٹھتے در گزر سے کام لیتے ہیں گھر خاندان رشتہ دار سب کا خیال رکھتے ہیں ، یہ جتنی بھی چیزیں ہیں انسان کے کرامت نفس کو بیان کر رہی ہیں۔

ہماری عشرہ کرامت میں ایک چھوٹی سی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ جہاں اپنے کردار کو مستحسن بنائیں بلند بنائیں وہیں اس بات پر بھی توجہ رہے کہ ایک بہن کی ولادت سے بھائی کی ولادت کے ان ایام کو اگر عشرہ کرامت کا نام دیا گیا ہے تو ہم ان دس دنوں میں دیکھیں کہ ایک بھائی ہونے کے اعتبار سے ہم نے اپنی بہنوں کے حقوق کو ادا کیا ہے یا نہیں ، بہن کے گھر گئے یا نہیں ؟ بہن کی خوشیوں کے ساتھ خوش ہوئے یا نہیں بہن کے رنج و غم و مصیبت نے ہمیں غمزدہ کیا یا نہیں ؟

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم مختلف مناسبتوں میں خوش ہو لیتے ہیں غم کی مناسبت ہو تو غمگین ہو لیتے ہیں لیکن ان مناسبتوں کے پس منظر میں کیا حقیقت پوشیدہ ہے اس پر غور نہیں کرتے ، کاش ہمارے سامنے بی بی معصومہ سلام اللہ علیہا کا کردار ہوتا کاش ہم دیکھتے کہ امام رضا علیہ السلام اپنی بہن سے کس قدر ملنے کو بیتاب تھے ، اگر ہم تاریخ اٹھائیں تو ملے گا امام رضا علیہ السلام نے خط لکھ کر اپنی بہن کو اپنے پاس بلایا ہے اور ادھر جیسے ہی بہن کو بھائی کا خط ملا ہے فورا ہی آپ نے رخت سفر باندھ لیا یہ بھائی بہن کی محبت کا وہ انداز ہے جو ہمیں در اہلبیت اطہار علیھم السلام پر ہی ملتا ہے ، اب ہم سوچیں ہم میں سے کتنے ایسے بھائی ہیں جنہوں نے اپنی بہنوں سے ایک عرصہ ہوا بات تک نہیں کی ہے بہن شادی ہو کر جب سے اپنے گھر پہنچی ہے کتنے ایسے ہیں جنہوں نے پلٹ کر نہیں پوچھا کہ تمہیں کوئی پریشانی تو نہیں ہے کتنے ایسے ہیں جنہیں کاروبار زندگی اجازت ہی نہیں دیتا کہ بہن کی احوال پرسی کریں بہن کو گھر بلائیں ، ادھر سے بھی بات اسی طرح ہے کتنی بہنیں ایسی ہیں جو اپنے گھر میں اتنا مشغول ہو گئیں کہ اپنے بھائیوں کو بھول گئی ہیں آج تو کسی کو یاد کرنے کے لئے نہ خط کی ضرورت ہے نہ نامہ بر کی ضرورت ہے پھر میں اگر کہیں بہن بھائیوں کے درمیان نا اتفاقیاں ہوں ، مدتوں سے بھائی نے بہن سے بات نہ کی ہو بہن بھائی سے ہم کلام نہ ہوئی ہو تو کتنےافسوس کا مقام ہے ، ہمارے سامنے زینب و امام حسین علیھما السلام کا کردار ہے جہاں ملتا ہے کہ جب بھی امام حسین علیہ السلام اپنی بہن کو دیکھتے ان کے احترام میں کھڑے ہو جاتے انہیں اپنی جگہ بٹھاتے تھے اور محبت بھری نظروں سے انہیں دیکھا کرتے تھے ۔

امام کا یہ انداز بہن بھائی کی محبت کو بتانے کے لئے کافی ہے جناب فاطمہ معصومہ و امام رضا علیہ السلام کی محبت بھی ہمارے پیش نظر ہے کہ آپ نے فرمایا جس نے میری بہن کی زیارت کی اس نے میری زیارت کی پھر کیسے ممکن ہے ان بزرگ ہستیوں کو ماننے والے بہن بھائی آپس میں ایک دوسرے سے ناراض ہوں یا دونوں کے رشتوں میں گرمی نہ پائی جاتی ہو ۔

ہم سے جہاں یہ عشرہ کرامت مطالبہ کرتا ہے کہ اپنے کردار کو آلودگیوں سے پاک کریں وہیں اس بات کا تقاضہ بھی کرتا ہے کہ ان رشتوں میں دوبارہ رنگ بھریں جو پھیکے پڑ رہے ہیں ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .