از قلم: ارشد امید
کوئی دلائے تو یعقوب کو قبائے حسین
یہ نور کیا ہے زمیں کو فلک بنائے حسین
مجھے بتاؤ کہ محفل کا حال کیا ہوگا
بہادری علی کی ہو مگر سنائے حسین
کسی نے پوچھ لیا آپ جیسا کوئی ہے؟
حضور گھر کو گئے اور ساتھ لائے حسین
تمہارے گاؤں کا ہر بچہ جانتا ہے مجھے
تمہارے گاؤں میں مشہور ہے گدائے حسین
کلیجہ پھٹ کے گرا تھا سکینہ کا اس دن
خدا بھی کہتا رہا روتے ہائے ہائے حسین
علی سے تین طلاقیں ملی تھیں دنیا کو
بتاؤ کس طرح دنیا سے دل لگائے حسین
علی کا ایک ہی خطبہ جہاں پہ بھاری ہے
یہ کم دماغوں کو کتنا علی بتائے حسین
لعین معجزہ دیکھیں, فقیر کے گھر پر
امید چاہتا ہوں ایک بار آئے حسین
خمِ غدیر سنا کر علی کی بات کریں
خمِ غدیر سنا کر علی کی بات کریں
ہر ایک رنج بھلا کر علی کی بات کریں
تمام جنتیں پیروں میں آ کے لپٹے گی
نبی کے سامنے جا کر علی کی بات کریں
علی سا پیر ہی بے عیب ہوتا ہے یارو
تو آؤ سر کو اٹھا کر علی کی بات کریں
یہ آرزو ہے مری موت وقت پر آئے
علی کے سامنے جا کر علی کی بات کریں
ہمارا دل یہی کہتا یہ شام کو امید
سخنوروں کو بلا کر علی کی بات کریں
جب تک جہاں رہے، یوں رہے یا علی مدد
جب تک جہاں رہے، یوں رہے یا علی مدد
انسان ذات روز کہے یا علی مدد
پھر دار ٹوٹنے لگے سب تخت گِر پڑے
سارے ملنگ کہتے چلے یا علی مدد
خیبر کا وقت تھا وہیں نادِ علی بنی
اس دن رسول بول پڑے یا علی مدد
ہم پیر چومنے لگیں، بوسہ دیں ہاتھ پر
کوئی اگر ہمیں یہ کہے یاعلی مدد
از قلم: جناب ارشد امید
آپ کا تبصرہ