از قلم: مولانا سلمان عابدی
یہ شہر پرشکوہ تھا پر برگ و بار تھا
خوشحال و خوش خرام تھا باغ و بہار تھا
خورسند و شادمان تھا اور دیدہ زیب تھا
دل باز و دل نواز تھا اور دلفریب تھا
سورج مکھی کے کھیت کھجوروں کا شہر تھا
پریوں کی بود و باش تھی حوروں کا شہر تھا
فنکاروں اور رئیسوں کی آماجگاہ تھی
آباد رقص و نغمہ سے ہر شاہراہ تھی
حقہ، سیگار، جام کی دوکانیں عام تھیں
تکمیلِ آرزو کی سبیلیں تمام تھیں
ہر میکدے پہ رندوں کا اک اژدحام تھا
پینا حلال اور نہ پینا حرام تھا
ہر صبح صبحِ عشرت و ہر شام شامِ عیش
ہر دل برائے عیش تھا ہر گام دامِ عیش
بھولے ہوئے تھے لوگ خدا کی گرفت کو
تسلیم ہی نہ کرتے تھے اپنی شکست کو
پھر اک پرند نے کوئی ایسی لگائی آگ
کوشش کے باوجود نہ قابو میں آئی آگ
شعلے ہوا سے مل کے جو پرجوش ہوگئے
منظر تمام شہر کے خاموش ہو گئے
پھر دفعتا خزاں کی یہ چپٹوں میں آگیا
پانی کا شہر آگ کی لپٹوں میں آ گیا
غزہ میں جو لگی تھی وہ تھی ارتعاش میں
اُسوقت سے ہی تھی یہ تمہاری تلاش میں
آسائشیں زیادہ وسائل تھے بے شمار
آلات تھے جدید تو حالات سازگار
تم بچ گئے خسارۂ مالی ہوا ضرور
غزہ کا سوچو زندہ تمہارا ہے گر شعور
مرہم رکھیں گے آؤ فلسطیں کے زخم پر
صیہونیت نے رکھا ہے جو زخم چیر کر
صیہونیت تمہارے لئے بھی عذاب ہے
صیہونیت ہمارے لئے بھی عتاب ہے
یہ سانپ آسمان سے اور نہ زمین سے
نکلا ہے بس تمہاری ہی یہ آستین سے
آؤ کچل دیں اِس کے سرِ پر غرور کو
آنگن میں شرق و غرب کے پھیلائیں نور کو
ہم بھی تمہارے غم میں شریک و سہیم ہیں
انسانیت پہ آؤ تو تحفے عظیم ہیں
اللہ سے دعا ہے کہ بارش کا ہو نزول
جلدی بجھے یہ آگ کھلیں کیاریوں میں پھول
آپ کا تبصرہ