کلام: مولانا محمدرضا ایلیاؔ مبارکپوری
سکینہؑ کے بابا سنیں التجا بلا لیجئے کربلا
اسی سال جاؤں میں کرب وبلا ،بلا لیجئے کربلا
نجف سے میں کرب وبلا جاؤں پیدل
کروں زائروں کی میں خدمت ہر اک پل
دعا میں اثر ہو مری ائے خدا بلا لیجئے کربلا
تڑپتا مچلتا میں روتا بلکتا
میں پلکیں بچھائے کھڑا ہوں میں آقا
بلاوا کب آئے گا سرکار کا بلا لیجئے کربلا
میں ارماں لیے دل میں ہوں لو لگائے
کھڑا ہوں ائے مولا میں نظریں جھکائے
کہ آساں ہو منزل ائے مشکل کشا بلا لیجئے کربلا
کہ فطرس کو آقا تمہیں نے شفا دی
کہ حر کی بھی قسمت تمہیں نے سنواری
چمکا دے قسمت میری تو ذرا بلا لیجئے کربلا
سبھی کو بلایا ہے در پہ ائے آقا
سبھی کو نکالا ہے مشکل سے مولا
یہی التجا ہے مجھے بھی بلا بلا لیجئے کربلا
کرونگا دعائیں جو پہنچوں وہاں پر
کہ مولا بلائیں سبھی کو یہاں پر
کہ کب ہوگی مقبول میری دعا بلا لیجئے کربلا
میں روضہ کی جاکر ضریح چوم لوں گا
میں رو رو دعائیں وہاں پہ کروں گا
سنو میری فریاد آقا ذرا بلا لیجئے کربلا
گلے مل کے سب کہوں گا قسم سے
میں زائر ہوں مولا کا اس کے کرم سے
یہ حسرت نہ رہ جائے دل میں خدا بلا لیجئے کربلا
ہے مجھ یقیں میرے آقا مجھے بھی
بلائیں گے روضے پہ مولا مجھے بھی
خوشی کا ٹھکانہ نہ ہوگا رضاؔ بلا لیجئے کربلا
آپ کا تبصرہ