آج کیا کیفیت یہ طاری ہے
وجہ تسکین بے قراری ہے
ہر طرف ابر نوبہاری ہے
سلسلہ رحمتوں کا جاری ہے
روز آغاز وحی باری ہے
نور سے دل کی آبیاری ہے
آج روز شکست شیطان ہے
جال میں آج خود شکاری ہے
مومنوں کے دلوں کے شہروں کی
دست احمد میں شہریاری ہے
ہے نبوت کے ختم کا اعلاں
دین کی رسم پائیداری ہے
کیا ہے احکام دین کی پابندی
دل کی بس آئینہ نگاری ہے
عدل محور نظام ہے اسلام
حالت ظلم احتضاری ہے
کہہ دو باطل سے باندھ لے بستر
آج کے بعد حق شعاری ہے
جب سے دیکھا جمال پیغمبر
جان بے اختیار واری ہے
منفعل ہے جہاں اشارے میں
واہ کیا شان کردگاری ہے
حکم آیا ہے ان کی الفت کا
کیا محبت بھی اختیاری ہے
پرکھا جائے گا اس محبت سے
کون نوری ہے کون ناری ہے
آج بعثت کا رسم اجرا ہے
کل ولایت کی تاجداری ہے
علم و حکمت کے تشنہ کاموں کی
جام اقرأ سے میگساری ہے
کیسے ان پڑھ سے پڑھ کہا رب نے
کیسی امت کے عقل ماری ہے
اپنے جیسا نبی کو کہتی ہے
کچھ نہ کچھ کیفیت بخاری ہے
دے کے نسیان و سہو کی نسبت
اپنے عیبوں کی پردہ داری ہے
جشن کرتے ہیں اس لیے برپا
روز بعثت ہے یادگاری ہے
وحی لائیں گے جبرائیل امین
یہ فضیلت بھی انحصاری ہے
ہر سو اقرأ باسم ربک ہے
فیض بعثت کا قم سے جاری ہے
وہ ہے توحید کا علمبردار
جو عقیدت میں چار یاری ہے
بھول کر سیرت پیمبر کو
شکل و صورت پہ جان واری ہے
آل کو چھوڑ کر ہے بال کی بات
اف مسلماں ہے یا پجاری ہے
ہر کسی کو ہے فکر بس اپنی
کیا یہی رسم دین داری ہے
ہے زمانہ اسیر رعنائی
دنیا ہاری تو ہم سے ہاری ہے
عسکری ہوگا اتحاد کہاں
جب طبیعت ہی انتشاری ہے
آپ کا تبصرہ