۲۲ آذر ۱۴۰۳ |۱۰ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 12, 2024
News ID: 389299
6 فروری 2024 - 21:43
حضرت ابوطالب

حوزہ/ کوئی بھی ایسا انصاف پسند شخص جسے تاریخ اسلام کے بارے میں معمولی سی بھی واقفیت ہوگی وہ حضرت ابو طالب علیہ السلام کے ایمان میں شک و شبہہ نہیں کرے گا۔

تحریر: سیدہ وجیہہ بتول رضوی

حوزه نیوز ایجنسی | حضرت ابو طالب علیہ السلام حضرت عبدالمطلب کے بیٹے، امام علی علیہ السلام کے والد اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے چچا ہیں۔ حضرت آبو طالب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ولادت سے ۳۵سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے کبھی بھی بت پرستی نہیں کی، ھمیشہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے۔آئین ابراھیم کے پیرو کار تھے۔آپ مکہ میں حج پر آنے والوں کے لئے پزیرائی کرتے تھے۔ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد حضرت عبد اللہ اور دادا حضرت عبد المطلب رحلت کر گئے تو دادا کے وصیت کے مطابق حضرت ابو طالب نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی زمہ داری سنبھالی۔

ابوطالب، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی اولاد سے زیادہہ چاہتے اور محبت کرتے تھے۔شعب ابی طالب کے گٹھن ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاخاص خیال رکھتے تھے۔علامہ مجلسی نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابو طالب رات کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر کو تبدیل کرتے۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی جگہ اپنے بیٹوں میں سے ایک کو سلاتے یعنی دن رات میں کبھی بھی پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کی حفاظت سے غافل نہیں ہوتے۔ جب حضرت ابوطالب نے رحلت فرمائی، دشمنوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ صدر اسلام کے اس مرد مجاہد کی موت بحالت کفر واقع ہوئی ہے، تاکہ لوگوں کو یہ باور کرائیں کہ رسول کی حفاظت و حمایت ان کا قومی وخاندانی جذبہ تھا۔ جس نے انہیں اس ایثار و قربانی پر مجبور کیا۔

حضرت ابوطالب کے ایمان لانے پر شک و شبہ پیدا کرنے میں ان کی مذہبی عقیدے سے زیادہ سیاسی اہمیت تھی۔ بنی امیہ کی سیاسیت کی بنیاد خاندان رسالت کے ساتھ دشمنی پر مبنی ہے، اس لئے انہوں نے بعض جعلی روایات پیغمبر اکرم سے منسوب کرکے حضرت ابوطالب کو کافر ثابت کرنے کی کوشش کی۔ان کا مقصد یہ تھا کہ یہ ثابت کریں کہ حضرت علی علیہ السلام کو عظمت و فضیلت کے اعتبار سے دوسروں پر فوقیت و برتری حاصل نہیں ہے۔ اگر حضرت ابوطالب،حضرت علی علیہ السلام کے والد بزرگوار نہ ہوتے تو وہ ہرگز اس بات کا اتنا زیادہ چرچا نہ کرتے اور نہ ہی اس قدر نمایاں طور پر اتنا جوش و خروش دیکھاتے۔

کوئی بھی ایسا انصاف پسند شخص جسے تاریخ اسلام کے بارے میں معمولی سی بھی واقفیت ہوگی وہ حضرت ابو طالب علیہ السلام کے ایمان میں شک و شبہہ نہیں کرے گا۔ اس کی دو وجہ ہیں:

اوّل: یہ کہ اگر کوئی شخص قومی تعصب کی بنا پر کسی دوسرے شخص یا قبیلے کی حمایت کرے تو یہ ممکن ہے کہ اسے جلد موت کے گھاٹ اتار دیا جائے لیکن یہ اس امر کا باعث نہیں ہوسکتا کہ وہ شخص چالیس سال تک، نہ صرف حمایت و پشت پناہی کرے، بلکہ اس شخص کا پروانہ وار شیفتہ بھی ہو۔

دوسرے: یہ کہ حضرت ابوطالب کے اقوال و اشعار، اخبار پیغمبر اور فرامین آئمہ معصومین علیہم السلام اس کی تردید کرتے ہیں اور اس بات پر متفق ہیں کہ رسول خدا کی حمایت کا اصل محرک ان کا وہ راسخ عقیدہ اور محکم ایمان تھا جو انہیں رسول کی ذات بابرکت پر تھا۔

حضرت ابو طالب علیہ السلام کے ایمان میں شک و شبہہ پیدا ہونے کی کوئی راہ نہیں ہے: چنانچہ امام زین العابدین (علیہ السلام) کی مجلس میں حضرت ابوطالب کا ذکر آگیا تو آپ نے فرمایا: مجھے حیرت ہے کہ لوگوں کو حضرت ابوطالب کے ایمان میں شک و تردد ہے۔ کوئی ایسی عورت جس نے دین اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرلیا وہ اپنے کافر شوہر کے عقد میں نہیں رہ سکتی ہے جبکہ حضرت فاطمہ بنت اسد ان اوّلین خواتین میں سے تھیں جو دین اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئیں، چنانچہ جب تک حضرت ابوطالب زندہ رہے وہ ان سے جدا نہ ہوئے۔

حضرت محمد امام اقر علیہ السلام سے حضرت ابوطالب کے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اگر حضرت ابوطالب کے ایمان کو ترازو کے ایک پلے میں رکھا جائے اور دوسرے پلے میں دیگر لوگوں کے ایمان کو رکھ کر تولا جائے تو یقینا حضرت ابوطالب کے ایمان کا پلہ بھاری رہے گا۔ کیا آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے بعض لوگوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ حضرت ابوطالب کی جانب سے فریضہ حج ادا کریں۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے رسول خدا کی حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ حضرت ابوطالب کا ایمان اصحاب کہف کے ایمان کی طرح تھا، اگرچہ وہ لوگ دل سے ایمان لے آئے تھے مگر زبان سے اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ ان کے اس عمل کا خداوند تعالیٰ انہیں دوگنا اجر دے گا۔

حضرت ابو طالب علیہ السلام کے بارے میں اہل تسنن کا نظریہ:

ان کے بارے میں ابن ابی الحدید لکھتا ہے:

کسی شخص نے حضرت ابوطالب کے ایمان سے متعلق کتاب لکھی اور مجھ سے کہا کہ اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کروں اور اس پر اپ نے ہاتھ سے کچھ لکھوں۔

میں نے کچھ اشعار اس کتاب کی پشت پر لکھ دیئے جن کا مضون یہ تھا: "لولا ابو طالب و ابنہ لما مثل الذین شخصا فقاما فذاک بمکة آوی و حامی و ہذا بیثرب جس الحماما." ”اگر ابوطالب اور ان کے فرزند علی نہ ہوتے تو دین اسلام ہرگز قائم نہیں ہوسکتا تھا۔ باپ نے مکے میں پیغمبر کی حمایت کی اور بیٹا یثرب میں موت کی حد تک آگے بڑھ گیا۔“

تبصرہ ارسال

You are replying to: .