۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
شام غربت

حوزہ/ مولانا سید شمع محمد رضوی بانی قرآن وعترت فاونڈیشن: لوگوں کو شہزادی کی عظمت اور آپ کی مظلومیت سے آگاہ کرنے کے لئے،ایام فاطمیہ میں مجالس اور جلوس کا اہتمام اشد ضروری ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،یہ شہزادی کونین س کاایک خاص لطف وکرم ہے کہ جہاں تمام دنیاکہ گوشے میں ایام فاطمیہ منایاجاتاہے وہیں پر قرآن وعترت فاونڈیشن کی جانب سے مختلف مناطق میں بہت ہی جذبے کے ساتھ غم منایاجاتاہے،کہیں پہ یک روزہ مجالس توکہیں سہ روزہ توکہیں خمسہ مجالس جسمیں مصرعہ طرح ]یہ کائینات ادھوری ہے فاطمہ کے بغیر[بھی شعراء کرام کے لئے دیاجاتاہے اور خطباء کرام کے علاوہ برجستہ اساتیذ و تحلیلگر کوبھی دعوت دی جاتی ہے،حجة الاسلام والمسلمین مولاناسیدشمع محمدرضوی بانی قرآن وعترت فاونڈیشن جنہوں نے ایک عرصے سے ہندوستان کے مختلف مناطق میں عاشقان ولایت کے ساتھ اہم فعالیتوں میں مشغول ہیں وہیں پر اپنی پوری توانیاں کے ساتھ ایام فاطمیہ بڑھ چڑھکر حصہ لیتے ہیں اور قرآن اور شہزادی کونین س عنوان پرلوگوں کوعلمی مطالب دینے پرہمہ وقت تیاررہتے ہیں،ساتھ ساتھ دستہ عزاداری،ہیت،انجمنوں کودورودرازسے بلاکرشام غربت نامہ پروگرام سے علاقے کو ایکبار پھر عزا میں مصروف ومشغول کیاکرتے ہیں۔

روزشہادت شہزادی کونین کے سلسلے سے کانفرنس کااہتمام ہوتاہے جس کاسلسلہ صبح٩بجے سے نمازمغرب تک ہوتاہے جس میں شعرائے کرام دیئے گئے مصرع طرح پر اپنامنظوم نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہیںاور علمائے عظام اپنی تقاریر ومقالات سے مومنین کے قلوب کومنور فرماتے ہیں۔پھرنماز مغرب کے بعد شام غربت کے نام سے مجلس کاآغاز کیاجاتاہے، جس میں تلاوت کلام الٰہی کے بعد مرثیہ خوانی و سوزخوانی ہوتی ہے اورپھر خطیب مجلس سے خطاب کرتاہے قابل ذکربات یہ ہے کہ اس شام غربت کواسی انداز میں منایاجاتاہے جس طرح شام غریباں ہندوستان میں برپاکی جاتی ہے،ایک عجیب کیفیت اور حزن وملال کاماحول پوری فضاپرچھاجاتاہے ، آہ وبکا، نالہ و شیون کاایساماحول بنتاہے کہ جس کاذکر ممکن نہیں ہے ، خطیب جب مجلس کوخطاب کرتاہے تومصائب پڑھنے کی طاقت اس کے اندرنہیںہوتی اور عزادار کاگریہ اتنابلندہوتاہے کہ ذاکرصرف احساسی کلمات سے استفادہ کرتاہے جس کااثرتا دیرمومنین پرطاری ہوتاہے،کس کسی سال توایسابھی ہواہے کہ پروگرام کے اختتام کے بعد بھی مومنین ایک دوسرے کو دیکھ کر گریہ کرنے لگتے تھے۔اس کے بعدباہرسے آئی ہوئی انجمنیں اپنے مخصوص انداز میں ایام فاطمیہ کی مناسبت سے نوحہ خوانی و سینہ زنی کرتی ہیں پھر جلوس کی شکل میں منزل بہ منزل نوحہ خوانی وسینہ زنی کرتے ہوئے یہ جلوس بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکے روضہ پراختتام پذیر ہوتاہے۔اختتام میں میںتقریرہوتی ہے جس میںصرف مصائب بیان کیاجاتاہے مومنین پابرہنہ و سر برہنہ زمین پر بیٹھے ہوتے ہیں ایسالگتاہے کہ کربلاکی شام ہے۔

جلوس عزا کی اہمیت

قدیم ایام سے برصغیر کے لوگوں میں ایک عام مزاج پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ لوگ مجلسوں کے ساتھ ساتھ جلوس عزا کو ایک خاص اہمیت دیتے ہیں یہاں تک کہ جو افراد مجالس عزا میں کسی وجہ سے شرکت نہیں کر پاتے وہ لوگ حتی الامکان جلوس عزا میں ایک خاص اہتمام کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔ لہٰذا ہر ادارے کے لئے دو چیزیں لازم اورضروری ہیں:

الف : لوگوں کو شہزادی کی عظمت اور آپ کی مظلومیت سے آگاہ کرنے کے لئے،ایام فاطمیہ میں مجالس اور جلوس کا اہتمام کرنا۔

ب : شہزادی کے پیغام کو عام کرنا۔علمی نشست،ولایت کانفرنس اور دیگر علمی مسائل کے علاوہ اسی سبب اس ادارے نے حضرت زہرا(س) کے پیغام کو عام کرنے کے لئے مجالس عزا کا اہتمام کیا لیکن جیسا کہ بیان کیا گیا کہ ہماری عوام میں جلوس عزا کا ایک خاص احترام پایا جاتا ہے اور مرد عورت، چھوٹابڑاہر ایک، بڑی دلچسپی سے شرکت کرتا ہے، اسی لئے ١٤٣٢ھ میں ''شام غربت'' کے عنوان سے ایک جلوس عزا کا سلسلہ قائم کیا گیا۔
پروگرام کی تفصیل اس پروگرام میں سب سے پہلے مجلس عزا ہوتی ہے جس کو سرزمین قم کا مشہور و معروف ذاکر خطاب کرتا ہے، مجلس کے بعد شبیہ تابوت برآمد ہوتا ہے۔ اس پروگرام میں بیرونی انجمنوں کو دعوت دی جاتی ہے جو کم سے کم بارہ سے چودہ گھنٹوں کا سفر طے کرکے اس میں شریک ہوتی ہیں۔

شام غربت

جناب اقبال حسین وکیل(سیوان)صاحب نے اراکین قرآن و عترت سے فرمایا کہ :کیا اچھا ہوتا کہ رقم کا بندوبست ہوتا اور اس پروگرام میں انجمنیں آیا کرتی ہیںظاہراً حضرت فاطمہ زہرا(س) کو اپنے محب کی یہ صدا پسند آئی اور اسکا بھی انتظام ہو ا جو سلسلہ آج تک چلا آرہا ہے اوراقبال حسین کے ساتھ ساتھ سبھی مومنین اس جلوس میں شہزادی کی آمد کو خیر مقدم کرتے ہیں اوراسی جلوس میں اپنی ہرسال کی زندگی کو شہزادی کے حوالے کرتے ہیں اور دعائے خیرلیتے ہیں١٤٣٤ہجری،میںامہٹ (جس کے صاحب بیاض محفوظ)سلطان پور یوپی سے آئی ہوئی انجمن اور١٤٣٥ہجری،میںپورہ معروف ''مئو''یوپی سے آئی ہوئی انجمن،اور١٤٣٦ میںسمندپور اعظم گڑھ کی انجمن کو مدعو کیا گیا تھا،اوراس سال١٤٤٤ہجری میں مبارکپورسے انجمن انصارحسینی رجسٹرڈ، اس انجمن نے اپنے نوحوں میں بی بی صدیقہ طاہرہ کے مصیبت پر مکمل روشنی ڈالی۔ بھیک پور اور اس کے مضافات کے مؤمنین بھی ماتمی انجمن کے ساتھ ساتھ تابوت کی مشایعت کرتے ہوئے روضہ حضرت فاطمہ زہراتک جاتے ہیں۔ جلوس کے دوران علماء اور ذاکرین اپنے نورانی بیانات میں حضرت صدیقہ طاہرہ کے پیغامات پر روشنی ڈالتے ہیں۔یہ پروگرام ٧بجے شام شروع ہوتا ہے اور رات ١بجے تک جاری رہتا ہے لیکن مؤمنین شروع سے آخر تک اسی جوش و ولولے کے ساتھ موجود رہتے ہیں۔

ملاحظات: روضۂ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاتاریخ کے آئینہ میں؛ ہماری بستی کی ایک محترم شخصیت جناب سید آل ابراہیم رضوی صاحب کی اہلیہ معظمہ کو خواب میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کادیدار نصیب ہوا، بی بی نے ان سے جگہ کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا: اے معظمہ! اس جگہ میری تربت کی شبیہ تعمیر کرو۔اس خاتون نے اپنے شوہر سے اپنا خواب بیان کیا، شوہر نے اپنی زوجہ کے خواب کی تعبیر کوعملی جامہ پہنایا اور اپنی ذاتی رقم سے اس مقام پر ایک چھوٹا سا روضہ تعمیر کروا دیا۔

یہ روضہ آج لوگوں کا مرجع عام بن گیا ہے، ہر شب جمعہ مؤمنین و مؤمنات اس مقدس مقام کی زیارت کرتے ہیں اور دیر رات تک دعا و مناجات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔۔
خداوندعالم،تمام فقہاء اور علماء ومجتھدین حضرات کو دشمنوں کی بری نگاہوں سے بچائیکیوں کہ اس نے ایام فاطمیہ کے سوگ کو اس طرح عام کیا کہ آج پوری دنیا میں شہزادی کا غم بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔ اسی عظیم تحریک کا نتیجہ ہے کہ آج ہماری بستی میں قم کے فاضل علماء کی سرپرستی میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد پروگرام ہوتا ہے، اس پروگرام کی توصیف میں مؤمنین کے دلوں سے ایسا لگتا ہے کہ شہزادی کونین ]س[نے اسی دن کے لئے اس بستی کا انتخاب کیا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .