تحریر: مولانا دانش عباس خان اعظمی
حوزہ نیوز ایجنسی। جب خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام ٹنوں لکڑیوں کی بھڑکتی آگ سے نجات پاگئے اور اس معجزہ نے حکومت نمرود کی چولیں ہلا دی تو اس جابر بادشاہ نے اپنے دربار میں چاپلوس قسم کے افراد کو دعوت دی جو ٹیڑھی فکر کے مالک اور مال و دولت کے لالچی تھے۔اسی دوران حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی دربار میں بلاتا ہے تاکہ ان سے مناظرہ کرے۔جسے خداوند عالم نے قرآن مجید سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۵۸ میں اس طرح سے نقل فرمایا ہے؛
إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ
"اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم نے کہا کہ میرا پروردگار وہ ہے جو موت و حیات دیتا ہے"
اسی وقت نمرود قید خانہ سے اپنے سامنے دو قیدی حاضر کرنے کا حکم دیتا ہے ایک قیدی کو قتل کرا دیتا ہے تو دوسرے کو آزاد، اس کے بعد اکڑ کر کہتا ہے:
أَنَا أُحْيِي وَأُمِيت میں زندگی و موت دیتا ہوں،تبھی دربار میں بیٹھے چاپلوسوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں اور خیال کیا کہ نمرود نے تو ابراہیم کو مبہوت اور حیران کر دیا اب ابراہیم اپنے خدا کے بارے میں کوئی جواب نہیں دے سکتے!
لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے باریکی سے گفتگو کے انداز کو بدلا۔۔۔۔ بجائے اس کے کہ جاہل اور ٹیڑھی فکر مجمع کو علمی و منطقی جواب دیتے فرمایا:
فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ پس بیشک اللہ مشرق سے سوج نکالتا ہے اور اسے مغرب میں ڈبو دیتا ہے،
اب اتنا سننا تھا کہ نمرود خود مبہوت و حیران رہ گیا کیونکہ سورج کے طلوع و غروب پر اس کا اختیار توتھا نہیں۔!
اگر ہندوستان کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو کہیں نمرودی مزاج جیسے وسیم دکھائی دیتے ہیں تو وہیں کچھ درباری لالچی عوام و خواص بھی۔
وسیم جیسے فِتّین قرآن مجید کو فتنہ کی آگ میں نذر آتش کرنا چاہتے تھے مگر اللہ جسکی حفاظت کرنا چاہے اسے کون مٹا سکتا ہے چونکہ سورج کو نکلنا ہے تو سو نکلے گا دوبارہ۔
لہذا ہمیشہ قرآن کا معجزہ دنیا میں روشنی بنکر بکھرتا رہا ہے تو اس بار بھی منکر قرآن اور نمرودی مزاج وسیم کا بھی منصوبہ ناکام رہا، اسی لئے جب اس ملعون کو ذلتوں نے ہر طرف سے گھیر لیا تو خیال کیا کہ ذلتوں پہ پردہ ڈالا جائے اور اس کے لئے چاپلوسوں اور حریصوں کو اکھٹا کرنا چاہئے پھر فرضی دلیلوں سے ووٹر تیار کرائے جائیں جو سَڑی ہوئی اور فرسودہ اقتدار کی کرسی میں کیل ٹھوکنے کا کام کرنے والے ہوں جس سے دوسری بڑی کرسیوں پہ بیٹھے مَہا سنگھیوں کو بھی زیادہ سا زیادہ اقتدار جمانے کا موقع ملتا رہے ان سب کے اوپر شیطانِ بزرگ امریکہ کی کارفرمائی بھی چلتی رہے۔
غرض کہ جب ٹیڑھی سوچ کے مالک اور لالچی درباریوں نے نمرودی مزاج وسیم کا ساتھ دے دیا تو اس وقت ابراہیمی مزاج کی ضرورت بھی تھی جو حق پسند بھی ہوں اور حق گو بھی، جو نہ کسی سے ڈریں نہ جادہ حق سے ہٹیں اسی لئے علماء انبیاء کے وارث ہیں لہذا جن علماء میں مذکورہ خصلتیں پائی جا رہی ہوں انکی پیروی کی جانی چاہئے تاکہ نمرود شکن افراد کی فہرست میں نام رہے ورنہ اس سے ہٹ کر نمرودی دربار سے جہنم کے نار تک کا راستہ کھلا ہوا ہے۔