۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
News ID: 382424
24 جون 2024 - 18:32
علامہ شیخ فدا علی حلیمی

حوزہ/ غدیر خم کو اہمیت دینا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کو اہمیت دینا ہے اس لیے کہ رسول اسلام کی رسالت غدیر سے وابستہ ہے اگر اعلان غدیر نہ ہوتا تو رسالت باطل ہو جاتی۔

تحریر: علامہ شیخ فدا علی حلیمی

حوزہ نیوز ایجنسیمذہب تشیع کی صداقت پر جہاں دسیوں دیگر احادیث دالت کرتی ہیں وہاں حدیث غدیر بنیادی حیثیت اور مرکزیت کی حامل ہے۔غدیر خم کو اہمیت دینا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کو اہمیت دینا ہے اس لیے کہ رسول اسلام کی رسالت غدیر سے وابستہ ہے اگر اعلان غدیر نہ ہوتا تو رسالت باطل ہو جاتی۔وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ

ہم اس تحریر میں غدیر کی اہمیت کو خود صاحبان غدیر یعنی آئمہ معصومین علیھم السلام کی نگاہ سے مختصرا بیان کرتے ہیں۔

رسول خدا (ص) اور غدیر

شیخ صدوق نے کتاب " امالی" میں امام باقر علیہ السلام اور آپ نے اپنے جد بزرگوار سے نقل کیا ہے کہ ایک دن رسول خدا (ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا: اے علی خداوند عالم نے آیت "یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک" کو تمہاری ولایت کے بارے میں نازل کیا ہے۔ اگر میں اس ولایت کو جسے لوگوں تک پنہچانے کا خدا نے مجھے حکم دیا نہ پہنچاتا تو میری رسالت باطل ہو جاتی۔ اور جو شخص تمہاری ولایت کے بغیر خدا سے ملاقات کرے اس کا کردار باطل ہے۔ اے علی میں وحی خدا کے علاوہ بات نہیں کرتا۔
( امالى شيخ صدوق، مجلس، 74، ص .400)

امام علی [ع] اور حدیث غدیر

اس سلسلے میں امیر المومنین کے بعض استدلالوں منجملہ اس استدلال کی طرف جو آپ نے ابوبکر کے لیے پیش کیا تھا کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے فرمایا: حدیث غدیر کی بنیاد پر کیا میں تمہارا اور مسلمانوں کا مولا ہوں یا تم؟ ابربکر نے کہا: آپ۔ (امالى شيخ صدوق، ج 1، ص .342۔ اثبات الهداة، حرعاملى، ج 2، ص 112، ح 473؛ مناقب ابن شهر آشوب، ج 3، ص 25 ـ .26)

حضرت زہرا ( س) اور غدیر

ابن عقدہ نے اپنی کتاب "الولایۃ" میں محمد بن اسید سے یوں نقل کیا ہے: فاطمہ زہرا [س] سے پوچھا: کیا پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی رحلت سے پہلے علی [ع] کی امامت کے بارے میں کچھ فرمایا:
جناب زہرا (س) نے جواب دیا: «و اعجباانسيتم يوم غديرخم؛» بہت تعجب ہے! کیا تم لوگوں نے غدیر خم کو فراموش کر دیا ہے؟( امالى شيخ صدوق، ج 2، ص .171)

امام حسن مجتبی (ع) اور غدیر

جب امام حسن [ع] نے معاویہ سے صلح کرنا چاہی تو اس سے فرمایا: مسلمانوں نے پیغمبر اسلام (ص) سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے میرے بابا کے بارے میں فرمایا: " انہ منی بمنزلۃ ھارون من موسی" اسی طرح انہوں نے دیکھا کہ پیغمبر (ص) نے بابا کو غدیر خم میں امام کے عنوان سے منصوب کیا ہے۔( امالى شيخ صدوق، ج 2، ص .171)

امام حسین (ع) اور غدیر

امام حسین [ع] معاویہ کی موت سے پہلے خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ نے بنی ہاشم کو جمع کیا اور فرمایا: کیا آپ جانتے ہیں کہ پیغمبر اسلام (ص) نے امیر المومنین علی علیہ السلام کو غدیر خم کے دن خلافت پر منصوب کیا؟ سب نے کہا: ہاں ، [اے فرزند رسول]۔(کتاب سليم بن قيس ہلالی، ص .168)

امام زین العابدین اور غدیر

ابن اسحاق، مشہور تاریخ نگار، کا کہنا ہے: علی بن حسین سے کہو: " من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ" کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: " اخبر ھم انہ الامام بعدہ"۔ [پیغمبر اسلام (ص) نے لوگوں کو یہ خبر دی کہ ان کے بعد علی [ع] امت کے امام ہیں۔ (معانى الاخبار، ص 65؛ بحارالانوار، ج 37، ص .223)

امام باقر علیہ السلام اور غدیر

ابان بن تغلب کا کہنا ہے: امام باقر علیہ السلام سے پیغمبر اسلام (ص) کے اس قول: " من کنت مولاہ فعلی مولاہ" کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: اے ابو سعید پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: امیر المومنین لوگوں کے درمیان میرے جانشین ہوں گے۔ (معانى الاخبار، ص .66)

امام صادق علیہ السلام اور غدیر

ایک آدمی نے سےامام صادق پوچھا: خداوند عالم نے کس چیز کے ذریعے ہمارے اوپر حجت تمام کی ہے؟
آپ نے فرمایا: «اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الاسلام دينا»؛ اس نے اس طریقے سے ولایت کو مکمل کیا اس سنت کے ذریعے اس نے تمہارے اوپر حجت کو تمام کیا ہے۔ (تفسير برهان، ج 1، ص .446)

امام موسی کاظم [ع] اور غدیر

عبد الرحمن بن حجاج نے حضرت موسی بن جعفر [ع] سے غدیر خم کی مسجد میں نماز کے بارے میں سوال کیا : آپ نے جواب میں فرمایا: «صل فيه فان فيه فضلا و قد كان ابى يامربذلك» اس میں نماز پڑھو اس لیے کہ اس میں نماز پڑھنے کی۔

امام رضا [ع] اور غدیر

امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ روز غدیر، آسمان والوں کے یہاں زمین والوں سے زیادہ مشہور اور مقبول ہے۔ اس کے بعد فرمایا: اے ابی بصیر، " این ما کنت فاحضر یوم الغدیر" جہاں بھی رہو غدیر کے دن امیر المومنین [ع] کے پاس جانا۔ یقینا اس دن خداوند عالم مسلمان مرد و زن کے ساٹھ سال کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اور ماہ رمضان کے دو برابر زیادہ لوگوں کو،جہنم کی آگ سے نجات دلاتا ہے۔ ۔۔۔۔ اس کے بعد فرمایا: «والله لوعرف الناس فضل هذا اليوم بحقيقه لصافحتهم الملائكه كل يوم عشر مرات» اگر لوگ اس دن کی قدر و قیمت کو جان لیتے تو بغیر شک کے ہر روز دس بار فرشتے ان سے مصافحہ کرتے۔ (تهذيب الاحكام، شيخ طوسى، ج 6، ص 24، ح 52؛ مناقب ابن شهرآشوب، ج 3، ص .41)

امام جواد[ع] اور غدیر

ابن ابی عمیر نے ابو جعفر ثانی [ع] سے اس آیت "یا ایھا الذین آمنوا اوفوا بالعقود" کے ذیل میں یوں نقل کیا: پیغمبر اسلام (ص) نے دس جگہوں پر اپنی خلافت کی طرف اشارہ کیا اس کے بعد آیت "یا ایھا الذین آمنوا اوفوا بالعقود" نازل ہوئی۔ (تفسيرقمى، ج 1، ص .160)
اس روایت کی وضاحت میں یوں کہنا چاہیے۔ مذکورہ آیت سورہ مائدہ کے شروع میں ہے۔ یہ سورہ آخری سورہ ہے جو پیغمبر اسلام (ص) پر نازل ہوا ہے۔ اس سورہ میں آیت اکمال اور آیت تبلیغ ہیں کہ جو واقعہ غدیر کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔

امام ہادی (ع) اور غدیر

شیخ مفید نے کتاب ارشاد میں امیر المومنین علی [ع] کی زیارت کو امام حسن عسکری اور آپ نے امام ہادی [ع] سے نقل کرتے ہوئے یوں بیان کیا ہےکہ امام جواد(ع) نے غدیر کے دن حضرت علی علیہ السلام کی زیارت کی اور فرمایا: «اشهد انك المخصوص بمدحةالله المخلص لطاعةالله ...»؛ گواہی دیتا ہوں کہ خدا کی مدح و ثنا آپ سے مخصوص ہے اور آپ اس کی اطاعت میں مخلص ہیں۔
اس کے بعد فرمایا: خداوند عالم نے حکم دیا: «يا ايهاالرسول بلغ ما انزل اليك من ربك و ان لم تفعل فمابلغت رسالته و الله يعصمك من الناس.»
اس کے بعد فرمایا: پیغمبر اسلام (ص) نے لوگوں کو خطاب کیا اور ان سے پوچھا: کیا میں نے جو کچھ میرے ذمہ تھا تم لوگوں تک نہیں پہنچایا؟
سب نے کہا: پہنچا دیا یا رسول اللہ(ص)۔
اس کے بعد فرمایا: خدا گواہ رہنا۔ اس کے بعد فرمایا: : «الست اولى بالمومنين من انفسهم؟ فقالوا بلى فاخذ بيدك و قال من كنت مولاه فهذا على مولاه، اللهم وال من والاه و عاد من عاداه و انصر من نصره و اخذل من خذله؛» کیا میں مومنین پر ان کے نفوس سے زیادہ حق نہیں رکھتا ہوں؟ سب نے کہا: ہاں، یا رسول اللہ آپ حق رکھتےہیں۔ اس کے بعد علی[ع] کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں۔۔۔ (بحارالانوار، ج 100، ص .3)

امام حسن عسکری(ع) اور غدیر

حسن بن ظریف نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو خط لکھا اور پوچھا: پیغمبر اسلام (ص) کے اس قول " من کنت مولاہ فعلی مولاہ" کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے جواب میں فرمایا: «اراد بذلك ان جعله علما يعرف به حزب الله عند الفرقة»؛ خدا وند عالم نے ارادہ کیا کہ یہ جملہ علامت اور پرچم قرار پائے تاکہ اللہ کا گروہ اختلاف کے وقت اس کے ذریعے پہچانا جائے۔( بحارالانوار، ج 100، ص .363، ج 37، ص .223، علل الشرائع، ج 1، ص 249، باب 182، ح .66)

امام زمانہ (ع) اور غدیر

دعائے ندبہ میں جو بظاہر آپ سے منسوب ہے وارد ہوا ہے:" فلما انقضت ایامہ اقام ولیہ علی بن ابی طالب صلواتک علیھما و آلھما ھادیا اذ کان ھو المنذر و کل قوم ھاد فقال و الملاء امامہ من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔۔۔"63بہت فضیلت ہے اور بتحقیق میرے بابا نے اس امر کے لیے حکم کیا ہے۔ (اصول كافى، ج 4، ص .566)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .