۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
شریف زاھدی

حوزہ / اہلسنت بلوچستان کے ایک برجستہ عالم دین جنہوں نے اپنی تحقیق و تفّحص کے بعد مذہب اہلبیت اختیار کیا، اپنے شیعہ ہونے کی داستان کو بیان کرتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اہلسنت بلوچستان کے ایک برجستہ عالم دین جناب شریف زاہدی، جنہوں نے اپنی تحقیق و تفّحص کے بعد مذہب اہلبیت اختیار کیا، وہ اپنے شیعہ ہونے کی داستان کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

بہت زیادہ غور وفکر کیا کہ اہلسنت کے لئے کس روایت یا کتاب سے ثابت کروں کہ "مولی" حدیث غدیر میں دوست کے معنی میں نہیں ہے بلکہ رہبر اور پیشوا کے معنی میں ہے۔یہاں تک کہ ایک دن" مولوی محمد عمر سربازی" کی ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا۔ جب مطالعہ سے فارغ ہوا اور کتاب بند کی تو دیکھا کہ اس کی جلد پر "مولف مولانا محمد عمر سربازی "لکھا ہوا ہے۔ فورا میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ مولویوں سے لفظ مولانا کا مطلب دریافت کروں اور پوچھوں کہ محمد عمر سربازی کو مولانا کیوں کہتے ہیں؟

میں نے کئی مولویوں سے سوال کیا،ہر ایک نے جواب دیا کہ "مولانا" یعنی "ہمارے رہبر وپیشوا"۔ میں نے ان سے کہا: "مجھے تعجب ہے کہ تمہارے بزرگوں کے بارے میں لفظِ "مولا" رہبر اور پیشوا کے معنی میں ہے لیکن کلامِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہی لفظ دوست کے معنی میں آیا ہے!!۔

ایک دفعہ میرا ایک اہلسنت دوست مجھ سے ملنے کے لئے آیا۔ اس سے اہلبیت (ع) کی حقانیت کے متعلق بڑی مفصل گفتگو ہوئی۔ میں نے اپنی اس گفتگو میں غدیر خم میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبہ سے بھی استناد کیا۔ میرے دوست نے کہا :"اس حدیث میں مولا دوست کے معنی میں آیا ہے"۔ خلاصہ جتنی بھی دلیلیں پیش کیں مورد قبول واقع نہ ہوئیں۔ خیر دوست نےخدا حافظی کی اور بلوچستان روانہ ہو گیا۔

اس کے جانے کے ایک گھنٹہ بعد میں نے اسے فون ملایا اور کہا:"مجھے تم سے ایک بہت ضروری کام ہے، واپس آ جاؤ"۔ اس نے کہا: "میرا جانا ضروری ہے ،اب واپسی ممکن نہیں ہے، میرے گھر والے میرا انتظار کر رہے ہیں،آخر کیا کام ہے؟ کیا ٹیلی فون پر نہیں بتا سکتے ہو"؟۔میں نے کہا :"بہت اہم کام ہے ، ٹیلیفون پر نہیں بتا سکتا ہوں ، تمہارا یہاں آنا ضروری ہے"۔

میں نے بہت اصرار کیا یہاں تک کہ وہ واپس آیا۔ جب مجھ سے ملا تو کہا :کون سا اہم اور ضروری کام ہے جو مجھےاتنی مسافت طے کرنے کے بعد واپس بلایا؟ میں نے کہا: دراصل میں تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ میں تمہیں دوست رکھتا ہوں۔ اس نے کہا: بس یہی! میں نے کہا :ہاں یہی کہنا چاہتا تھا۔

پھر کیا تھا میرا دوست مجھ سے سخت خفا ہوگیا اور اس نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:یار! میرے گھر والے منتظر تھےاورمجھے جانا تھا اور تم نے اتنی مسافت طے کرنے کے بعد مجھے واپس بلا لیا۔ صرف یہ کہنے کے لئے کہ مجھ سے کہو "تم مجھے دوست رکھتے ہو"۔ یہ اذیت نہیں تو اور کیا ہے؟

میں نے کہا:میرا سوال بھی یہی ہے۔ جب تم اپنے گھر کی طرف تیزی کے ساتھ جارہے تھے کہ تمہارے گھر والے تمہارا انتظار کر رہے ہیں اور میں تمہیں واپس بلا لیتا ہوں تاکہ تم سے کہہ سکوں کہ تمہیں دوست رکھتا ہوں؛ تم ناراض ہوجاتے ہو اور میری عقل پر شک کرنے لگتے ہو۔ لیکن جب پیغمبر(ص) ایک لاکھ سے زیادہ حاجیوں کو جو حج کی انجام دہی کے بعد تیزی کے ساتھ اپنے گھروں کو جا رہے تھے، واپس بلا لیتے ہیں اور تین دن تک انہیں اس تپتے ہوئے صحرا میں روکے رکھتے ہیں کہ فقط یہ کہیں کہ جو مجھے دوست رکھتا ہے وہ علی کو دوست رکھے، تو کیا تم پیغمبر(ص) کے اس کام کو عاقلانہ قلمداد کرتے ہو؟ کیا پیغمبر (ص)کے اس فعل سے لوگ ناراض نہ ہوئے ہوں گے؟،کیا انہوں نے (معاذاللہ) پیغمبر (ص) کی عقل پر شک نہ کیا ہوگا؟

میرے اس کام سےمیرے دوست نے پورے وجود کے ساتھ احساس کیا کہ واقعا اس نے (مولی کا معنی دوست کہہ کر) گویا مضحکہ خیز بات کہی تھی اور پھر اقرار کیا کہ ہاں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدیر خم میں ایک اہم نکتہ بیان کرنا چاہتے تھے جس کے لئے اتنا اہتمام کیا۔ ورنہ علی علیہ السلام سے صرف اپنی دوستی کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ گھر جاتے مسلمانوں کو راستے سے واپس بلاتے۔

حوالہ: کتاب «باید شیعه می شدم»، خاطرات شریف زاهدی، (میرا شیعہ ہونا ضروری تھا، شریف زاہدی کے واقعات)، ص138

لفظِ مولی کے معنی پر اہلسنت عالم دین کا استدلال؛ آیا اعلانِ غدیر صرف علی (ع)کی دوستی کے بیان کے لئے تھا؟!

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .