حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت آیت اللہ صافی گلپائیگانی (علیہ الرحمہ) نے اس تحریر میں آیات قرآنی کی بنیاد پر غدیر کی تبلیغ پر کرتے ہوئے ماہ ذی الحجہ کو ماہ ولایت اور امامت قرار دیا اور اس مہینے کی دوسری مناسبتوں کی اہمیت کی جانب اشارہ کیا ہے جو کہ شیعوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے جیسے حضرت علی علیہ السلام کا نماز کی حالت میں انگوٹھی دینا ، روز مباہلہ اور نزول آیہ تطہیر کا دن۔
ولایت علی علیہ السلام کا اعلان اسلام کی بنیاد ہے
آیہ بلّغ، آیہ تطہیر، آیہ ولایت، اور سورہ "ھل اتیٰ" سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہمارے آقا اور مولیٰ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا ابلاغ اور اعلان کا مسئلہ دین اسلام کی اصل اور بنیاد ہے، اور غدیر کی تبلیغ کا کام نہ صرف ذاتی طور پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم پر واجب تھا بلکہ ہر زمانے میں ہر انسان اور تمام مسلمانوں اور مومنین پر فرض ہے اور اس کے بغیر لوگوں کا ایمان ادھورا رہے گا۔
واقعہ غدیر ایک نا قابل انکار واقعہ
شیعہ اور سنی دونوں مذاہب نے ماضی سے لے کر آج تک ہمیشہ واقعہ غدیر کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور شاید یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ غدیر کے بارے میں جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں اتنی کتابیں دیگر موضوعات پر نہیں لکھی گئی ہیں۔
غدیر کا مسئلہ اس قدر واضح اور روشن ہے کہ ہر کوئی اس کو قبول کرے گا اور اس کے انکار کا مطلب ایسا ہی ہے جیسے کوئی دھوپ میں سورج کا انکار کر دے۔
ماہ ذی الحجہ ، ولایت اور امامت کا مہینہ
ذی الحجہ کا پورا مہینہ ، ولایت اور امامت کا مہینہ ہے، اس مہینے کی چوبیسویں اور پچیسویں تاریخ کو امیر المومنین اور اہل بیت علیہم السلام کی فضیلت میں آیات نازل ہوئیں جن کا غدیر کے علاوہ شیعوں کو احترام اور فخر کرنا چاہیے۔ دن
اس مہینے کی چوبیسویں اور پچیسویں تاریخ کو امیر المومنین اور اہل بیت علیہم السلام کی شان اور فضیلت میں آیات نازل ہوئیں، شیعوں کو یوم غدیر کے علاوہ ان دنوں کا بھی احترام کرنا چاہئے اور ان پر فخر کرنا چاہیے۔
آیت کریمہ: إِنَّما وَلِیکمُ اللّٰهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذینَ آمَنُوا الَّذینَ یقیمُونَ الصَّلاهَ وَیوتُونَ الزَّکاهَ وَهُمْ راکعُونَ۔
شیعہ اور سنی علمائے کرام نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ یہ آیت امام علی علیہ السلام کے سلسلے میں اس وقت نازل ہوئی جب آپ رکوع کی حالت میں تھے اور اپنی انگوٹھی کو زکوٰۃ میں ایک فقیر کو دے دیا، یہ واقعہ 24 ذی الحجۃ کو رونما ہوا تھا۔
اسی طرح آیہ مباہلہ: فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ۔
یہ آیت روز مباہلہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام، حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا، امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کی فضیلت میں یہ آیت نازل ہوئی، اس آیت میں خدا کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کو نفس رسول خدا کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے جو تاریخ اسلام میں مباہلہ کے عظیم دن کے طور پر درج ہے اور یہ واقعہ اہل بیت علیہم السلام کی حقانیت کی ایک اہم دستاویز ہے، لہذا اور اس دن کو عید غدیر کی طرح ہی منانا ضروری ہے۔
اسی طرح آیہ تطہیر کا نزول بھی چوبیسویں ذی الحجۃ کو پوا تھا اور پچیسویں ذی الحجۃ کو سورۃ الانسان کی آیات اہل بیت علیہم السلام کے فضائل کے بارے میں نازل ہوئیں، تمام شیعوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کو ان ایام کی یاد منائیں اور ان ایام کو اہم سمجھیں اور دوسروں کوان سے آگاہ کریں۔